بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوانی میں بال سفید ہوجائیں تو سیاہ کرنا کیسا ہے؟


سوال

میری عمر 28سال ہے، میری داڑھی کے بال سفید ہوگئے ہیں ؛ لہذا میں  کالی مہندی لگاسکتا ہوں؟

جواب

 واضح رہے کہ حدیث میں بالوں کو کالا خضاب (ایسی مہندی یا تیل یا کریم  جو بالوں کو بالکل سیاہ کردے)   لگانے کی  مطلقًا ممانعت وارد ہوئی ہے،اس میں ایسی  کوئی تفصیل نہیں کہ عمر کے طبعی تقاضا کے بنا پر بال سفید ہوجائے تو سیاہ کرنا ممنوع ہے اور اگر  عوارض کے بنا پر جوانی میں بال سفید ہوجائیں تو سیاہ کرنا جائز ہے۔    اِسی بنا پر عام حالات میں مرد کے لیے  (چاہے جوان ہو یا بوڑھا) ایسی کالی مہندی  وغیرہ  لگانا جس سے سفید  بال بالکل سیاہ ہوجائیں، اِس سے منع کیا گیا ہے،صرف جہاد کے موقع پر ضرورتًا اِس طرح کے خضاب کی اِجازت دی گئی ہے؛ تاکہ دشمن پر رعب ڈالا جاسکے،لہذا آپ خالص کالے رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ سے اپنے بالوں کو رنگ سکتے ہیں، لیکن خالص  کالا رنگ استعمال کرنا جائز نہیں۔  

عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة، ورأسه ولحيته كالثغامة بياضًا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد" .

أخرجه ابوداود في سننه في باب في الخضاب (6/ 267) برقم (4204)،ط.  دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م

جامعہ کے دارالافتاء کے  رئیس حضرت مولانا مفتی عبد السلام  چاٹگامی صاحب مدظلہ لکھتے ہیں :

"اور سیاہ خضاب لگانا مجاہد کے علاوہ سب کے لیے ممنوع ہے۔فقط، واللہ تعالی اعلم بالصواب"

(آپ کے سوالات اور ان کا حل: حظر واباحت کے مسائل، سیاہ خضاب جائز ہے یا نہیں (۲/ ۲۷۸)،ط۔ اسلامی کتب خانہ کراچی، سن اشاعت:۲۰۱۷ء)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

سوال:۱۴۱)            سر کے بال جوانی میں سفید ہوجائیں تو سیا ہ خضاب لگانا کیسا ہے؟ بینواتوجروا۔

(الجواب)سیاہ خضاب لگانا سخت گناہ ہے ، احادیث میں اس پر وعید آئی ہے ایک حدیث میں ہے: عن ابن عباس رضی اللہ عنهما عن النبی صلی اللہ عليه وسلم قال: یکون قوم فی آخر الزمان یخضبون بهذا السواد کحو اصل الحمام لایجدون رائحة الجنة. حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے جیسے کبوتر کا سینہ ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔

(ابوداؤد شریف ج:۲ ، ص:۲۲۶باب ماجاء فی خصاب السواد)(مشکوٰۃ شریف ص:۳۸۲)

 دوسری حدیث ہے :عن جابر رضي اللہ عنه قال: أتی النبی صلی اللہ عليه وسلم بأبي قحافة یوم الفتح ورأسه ولحیته کالثغامة بیاضاً، فقال النبی صلی اللہ  عليه وسلم: غیّروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد.حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں لایا گیا ان کے سر اور داڑھی کے بال ثغامہ کے مانند بالکل سفید تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ خضاب سے احتراز کرو۔

(ابوداؤد شریف ج۲ص۲۲۶باب فی الخضاب)(مشکوٰۃشریف ص۳۸۲)

اس حدیث میں سیاہ خضاب سے بچنے کا صراحۃً امر فرمایا،  لہذا اس سے بالکل احتراز کیا جائے اس کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ سیاہ خضاب کے علاوہ دوسرے رنگ کا خصاب مثلاً: سرخ خالص حناء یعنی مہندی کا یا کچھ سیاہی مائل جس میں کتم (ایک قسم کی گھاس ہے جو خضاب کے کام میں آتی ہے) شامل کیا جاتا ہے، جائز ہے ،حدیث میں ہے:   إن أحسن ماغیّربه الشیب الحناء والکتم.بہترین خضاب حنا اور کتم ہے۔

(ابو داؤد شریف ج۲ص۲۲۶باب فی الخضاب)(مشکوٰۃ شریف ص۳۸۲).

 حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے صحیحین میں منقول ہے کہ حناء اور کتم کا خضاب لگاتے تھے۔ وفیالصحیحین عن أنس رضی اللہ عنه: أن ابا بکر رضي اللہ عنه اختضب بالحناء والکتم.

(بحوالہ زاد العاد ج۲ص۱۶۹)

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

وعن الإ مام أن الخضاب حسن لکن بالحناء والکتم والوسمة، وأراد اللحية وشعر الرأس.

یعنی: داڑھی اور سر کے بال میں خضاب کرنا اچھا ہے، لیکن مہندی، کتم اور وسمہ سے خصاب کیا جائے۔

(فتاویٰ عالمگیری ج۶ص۲۳۸کتاب الکراہیۃ الباب العشرون فی الزینۃ الخ ) فقط وااللہ اعلم بالصواب ۔

(فتاوی رحیمیہ:  کتاب الحظر والإباحة،بالوں کے احکام (10/ 117)،ط. دار الاشاعت، كراتشي)                       

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200838

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں