ہمارے ہاں ایک نئی ایپ آئی ہے، جس کو بڑے پیمانہ پر لوگ استعمال کررہے ہیں ، جس کا نام "jawa eye"ہے، جس طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے: سب سے پہلے آپ کو اس ایپ کم از کم پاکستانی تیرہ ہزار روپے جمع کرنے ہوتے ہیں، پھر اس تیرہ ہزار کے بدلے آپ کو ڈالر دئیے جاتے ہیں، پھر ڈالر کے ذریعے آپ کو فلمیں ، کارٹون اور گیم خریدنے ہوتے ہیں، ایک ٹکٹ کے ذریعےسے، ایک ٹکٹ آپ کو دس ڈالر میں ملتا ہے، پھر تقریباً پانچ یا چھ گھنٹے بعد آپ کے دس ڈالر 0.20 منافع سمیت واپس آپ کے اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں، یعنی وہ فلم وغیرہ خود بخود فروخت ہوتی ہے، آن لائن کے ذریعے۔ شرعاً اس طرح کا کاروبار جائز ہے یا نہیں ؟
"Jawa Eye" کمپنی کی ویب سائٹ اور دیگر الیکٹرانک ذرائع وغیرہ سے دست یاب معلومات کے مطابق "Jawa Eye" کمپنی ایک انٹرنیٹ پلیٹ فارم ہے جو مشترکہ طور پر ایک برطانوی سرمایہ کار کمپنی (LABON BROTHER LTD) اور سنگاپور کیپٹل (LEAD TECH GROUP INTERNATIONAL PTE. LTD. (n.k.a)) کے ذریعےکام کررہی ہے، یہ کمپنی فلموں اور ٹیلی ویژن منصوبوں پر عمل درآمد کرنے لیے فنڈز اور دیگر وسائل اکٹھا کرتی ہے، فلم پروڈیوسرز کے ساتھ ساتھ، فلموں اور ٹی وی سریز میں سرمایہ کرنے والوں کا بھی تعاون کرتی ہے، اور یہ فلم بنانے والے اداروں کی کنسلٹنٹ پارٹنرز بھی ہے، اور مذکورہ کمپنی اپنے مقصدکو واضح طور پر یوں باور کراتی ہے: ".JAWA EYE WILL ENORMOUSLY BENEFIT ALL FILM LOVERS WORLDWIDE" (جاوا آئی دنیا بھر کے تمام فلمی شائقین کو بہت زیادہ فائدہ دے گی)۔(https://jawaeyes.com/)
اس میں سرمایہ کاری کا ایک طریقہ جس کو سائل نے سوال میں بھی ذکر کیا ہے کہ اس میں اکاؤنٹ بنواکر میں ڈالر جمع کرانے ہوتے ہیں اور اس میں مختلف درجات کے اعتبار سے فرق بھی ہے، اور پھر ان ڈالرز سے مختلف فلم، کارٹونز وغیرہ کے ٹکٹ خریدنے کے آپشن ملتےہیں، ہر فلم کا وقت بھی لکھا ہوا ہوتا ہے، ایک ٹکٹ دس ڈالر تک ملتی ہے اور اسی وقت اس پر ملنے والا متعین منافع بھی ظاہر کردیا جاتا ہے، اور فلم ختم ہونے کے بعد وہ فکس منافع اپنے ڈالرز کے ساتھ واپس اکاؤنٹ میں آجاتا ہے، اسی طرح مزید ممبر بنانے پر واؤچرز ملتے ہیں، اس سے بھی فلم کے ٹکٹس خریدے جاسکتے ہیں۔
اس کمپنی میں سرمایہ کاری کا شرعی حکم:
کسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کے جائز ہونے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا کاروبار حقیقی طور پر موجود ہو،جائز اور حلال ہو، اور مذکورہ کمپنی کا بنیادی کام فلموں اور ٹیلی ویژن منصوبوں پر عمل درآمد کرنے لیے فنڈز اور دیگر وسائل اکٹھے کرنا ہے،جب کہ فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن سریز وغیرہ میں کئی قسم کی ناجائز چیزیں موجود ہوتی ہیں،مثلاً:
اور مذکورہ بالا امور میں سے ہر ایک ناجائز اور حرام ہیں، لہذا جو کمپنی فلم انڈسٹری کو سرمایہ فراہم کررہی اور اس کو معاشرے میں ترویج دینے کے لیے کوشاں ہے، اس میں سرمایہ کاری کرنا ان سب ناجائز کاموں میں تعاون کرنا ہے، اور گناہ کے کاموں میں تعاون کرنا بھی گناہ ہے۔
نیز مذکورہ کمپنی کا بنیادی کاروبار ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ، اس میں جو سرمایہ کاری کا طریقہ ہے وہ بھی شرعی اصولوں کے مطابق درست نہیں ہے؛ کیوں کہ:
1: اس میں نفع کی رقم پہلے سے مقرر ہوتی ہے، اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی، شرعاً شرکت میں نفع کے حصول کا یہ طریقہ جائز نہیں ہے۔
2: اسی طرح اس میں نفع کی یقین دہانی ہوتی ہے، اور نقصان نہ ہونے کی گارنٹی ہوتی ہے، جب کہ شرعی اعتبار سے کاروبار میں سرمایہ کار نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، لہٰذا شرکت میں نفع کی یقین دہانی کروانا درست نہیں ہے، بلکہ اس طرح کا نفع سود ہے اور حرام ہے ۔
3: کسی جائز کاروبار کی بھی اس طرح تشہیر کرنا کہ جس میں دوسروں کو ممبر بنانے پر چین در چین کمیشن ملتا رہے، شرعاً جائز نہیں ہے۔لہذا مذکورہ کمپنی میں دوسروں کو شامل کرانے پر اور پھر ان لوگوں کے دوسرے کو شامل کرانے پر پہلے ممبر کو جو واؤچرز وغیرہ ملتے ہیں ، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔
4: نیز دوسروں کو اس کمپنی کا ممبر بنانا درحقیقت انہیں بھی گناہ کے کام کی ترغیب دینا ہے، اور یہ بھی گناہ ہے۔
لہذا خلاصہ یہ ہے کہ "Jawa Eye" کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا اور اس سے نفع کمانا شرعاً جائز نہیں ہے، اور نفع کی رقم بھی حلال نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
"و تعاونوا على البر و التقوى و لاتعاونوا على الاثم و العدوان."(المآئدة :2)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"{ولا تعاونوا على الاثم والعدوان} نهى عن معاونة غیرنا علی معاصی الله تعالیٰ."
(2/ 381، مطلب البیان من اللہ تعالیٰ علی وجھین، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"{ولا تعاونوا على الاثم و العدوان}، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم."
(2/ 12 ، الآیة: 1، ط: دار طيبة)
الدرالمختار میں ہے:
"وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية."
(6 /348، کتاب الحظر والاباحة، ط: سعيد )
فتاوی شامی میں ہے:
"وماکان سببًا لمحظور محظور... و نظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."
(6/ 350، كتاب الحظر والإباحة، ط: سعید)
درر الحکام میں ہے:
"(يشترط أن تكون حصة الربح الذي بين الشركاء جزءا شائعا كالنصف والثلث والربع فإذا اتفق على أن يكون لأحد الشركاء كذا درهما مقطوعا من الربح تكون الشركة باطلة).
يشترط أن تكون حصة الربح الذي سيقسم بين الشركاء جزءا شائعا كالنصف والثلث والربع، وبتعبير آخر يجب أن لا يكون في تعيين الربح حال يقطع الشركة أي يجب أن يكون الربح أولا: جزءا، فإذا شرط كل الربح لأحد الشركاء لا تصح الشركة، ثانيا: أن يكون شائعا، فلذلك إذا اتفق على أن يكون لأحد الشركاء كذا درهما مقطوعا كمائة درهم من الربح وأن يكون باقيه كاملا للآخر أو مشتركا تكون الشركة باطلة ويقسم الربح على الوجه المبين في المادة (1368) لأنه من الجائز أن يحصل ربح أكثر من الربح الذي عين مقطوعا ويحرم الشريك الآخر من الربح بالكلية فتنقطع الشركة في هذا الحال (رد المحتار والبحر)."
(3/ 352، المادة (1337) الكتاب العاشر: الشركات، الباب السادس في بيان شركة العقد، الفصل الثاني في بيان شرائط شركة العقد العمومية،ط:دار الجيل)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(6/ 63، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی اجرۃ الدلال، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144407100764
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن