بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاوا آئی میں پیسہ انویسٹ کرنے کا حکم


سوال

جاوا آئی ( Jawa Eye ) ایک آن لائن ارننگ پلیٹ فارم ہے، جو کہ بیک وقت فلم انڈسٹری کے ساتھ شامل ہوتا ہے،  کام کا طریقہ کار کچھ ایسا ہے کہ اس میں بندے کو پیسے انویسٹ کرنے پڑتے ہیں،  انویسٹمنٹ کرنے پر آپ کو پانچ سے دس ڈالر کا بونس دیا جائے گا، فلموں کی ٹکٹس خرید کر فلم ختم ہونے کے فوراً بعد ہی آپ کو ٹکٹس کے حساب سےبھی بونس دیا جائے گا، جب کہ مزید ممبرز کو شامل کروانے پر بھی مزید بونس دیا جائے گا، فی ممبر ایڈ کرنے پر پانچ ڈالر تک بونس ملتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ نے پچاس ڈالر کی انویسٹمنٹ کی، جس پر آپ کو دس ڈالر کا بونس ملا، اب ٹوٹل ساٹھ ڈالر ہوگئے، تین ممبرز ایڈ کروائے، فی ممبر پر پانچ ڈالرملے، تو اب ٹوٹل پچھتر ڈالر ہوگئے، ایک فلم کی پانچ ٹکٹس خریدنے پر ایک ڈالر کا نفع ملتا ہے، یعنی یہ  کل ملا کر دیکھیں تو چھہتر ڈالر ہوگئے، اب پوچھنا یہ ہے کہ  کیا اس طرح کے پلیٹ فارم پر انویسٹمنٹ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس سے کمائی گئی رقم حلال ہوگی یا حرام ؟

جواب

واضح رہے کہ فلموں کا کام کرنا یا اس کی ترویج میں حصہ لینا جائز نہیں اور نہ ہی اس کی آمدنی حلال ہے؛ کیوں کہ اس میں گناہ کی معاونت ہے، اور گناہ کےکام  میں تعاون کرنا بھی گناہ ہے، نیز اس صورت میں  جو تنخواہ  ملے گی، وہ بھی حرام  آمدن سے ملے گی، تو اس وجہ سے بھی  اس کے وہ تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جاوا آئی ( Jawa Eye )نامی ایپ میں پیسے انویسٹ کرنا در حقیقت فلموں کی ترویج میں حصہ لینا ہے، اور اس کام تعاون علی المعصیت بھی ہورہا ہے؛ اسی لیے اس ایپ میں پیسے انویسٹ کرنا یا اس کے ذریعے پیسہ کمانا دونوں ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشادی ہے:

"و تعاونوا على البر و التقوى و لاتعاونوا على الاثم و العدوان."

(المآئدة :2)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"{ولا تعاونوا على الاثم والعدوان} نهى عن معاونة غیرنا علی معاصی الله تعالیٰ."

(مطلب البیان من اللہ تعالیٰ علی وجھین، ج: 2، ص: 381، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"{ولا تعاونوا على الاثم و العدوانیأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم."

(تفسیر ابن کثیر، الآیة: 1،  ج: 2، ص: 12، ط: دار طيبة)

الفقہ الاسلامی وادلّتہ  میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے

"وماکان سببًا لمحظور محظور... و نظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:350، ط: سعید) 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو وعلى هذا الحداء وقراءة الشعر وغيره ولا أجر في ذلك وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمهم الله تعالى."

(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع، ج: 4، ص: 449، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں