بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاؤ خوش رہو سے طلاق کا حکم


سوال

فتویٰ نمبر 144109200111 میں مفتی صاحب نے واضح نہیں کیا کہ جب میں نے کہا تھا جاؤ خوش رہو یہ چھوڑنے کی نیت سے کہا تھا، اس بات کا ذکر فتویٰ میں نہیں آیا،  مہربانی کر کے میری بات اُن تک پہنچا دیں۔

جواب

پہلے سوال میں ’’جاؤ خوش رہو‘‘  عام گفتگو میں موجود تھا، البتہ اس سے طلاق کا مذاکرہ یا نیت طلاق کا ذکر سوال میں نہیں کیاگیا تھا،  تاہم " جاؤ  خوش رہو " کا لفظ طلاق کی نیت سے اگر بولا ہے تو  اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اس کے بعد  ’’آزاد ہو میری طرف سے‘‘  کہا، چوں کہ یہ صریح بائن کے حکم میں ہے؛ لہذا  کل  دو طلاق  بائن  ہوگئی ہیں،  نکاح ختم ہوگیا ہے،  رجوع کا حق نہیں،  البتہ باہمی رضامندی سے نئے مہر کے تقرر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنے کا اختیار ہے،  نکاح کرنے کی صورت میں آئندہ ایک طلاق کا اختیار ہوگا ۔

لمافي الدر المختار (۲۹۶/۳):

"( كنايته ) عند الفقهاء ( ما لم يوضع له ) أي الطلاق ( واحتمله) وغيره (ف ) الكنايات ( لاتطلق بها ) قضاء ( إلا بنية أو دلالة الحال ) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب فالحالات ثلاث رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا ولا ( فنحو اخرجي واذهبي وقومي ) ... ( يحتمل ردًّا) ... ( وفي الغضب ) توقف (الأولان ) إن نوى وقع وإلا لا". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں