بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’جاؤ اپنے دیور کے پاس، میری طرف سے طلاق ہے ، طلاق ہے، طلاق‘‘ کہنے کا حکم


سوال

ایک دن بیوی کسی شادی پر جارہی تھی، اور بناؤسنگھار کررہی تھی، شوہر نے بیوی کو بناؤسنگھار سے منع کیا اور کہا کہ یہ جائز نہیں ہے ، کیوں کہ آپ دوسروں کے لیے اپنے آپ کو خوبصورت کرتی ہو، لیکن بیوی نے شوہر کی بات نہیں مانی، اور شادی پر چلی گئی، رات کو جب واپس آئی اور میاں بیوی ایک کمرے میں ہوئے تو شوہر بیوی کو راضی کررہا تھا لیکن بیوی اضی نہیں ہوئی، بالآخر دونوں غصے میں آگئے اور بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ سے آپ کا بھائی اچھا ہے، یعنی اپنے دیورکی اچھائی بیان کی، شوہر کے منہ سے غصے میں بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ ’’جاؤ اپنے دیور کے پاس، میری طرف سے طلاق ہے ، طلاق ہے، طلاق‘‘اور اس کے بعد 8 یا 10 منٹ بعد ان شاء اللہ بھی کہا، اور پریشان بھی تھا، جب صبح ہوئی تو شوہر کنائی الفاظ (جاؤاپنے دیور کے پاس )بھول گیا ،صریح الفاظ کے بارے میں ایک مولوی صاحب کے پاس گیا،ان سے صریح الفاظ کے بارے میں حکم معلوم کیا ،بعد میں شوہر کو کنائی الفاظ بھی یاد آئے، اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کا کیاحکم ہے ؟یہ طلاق حالتِ  طہر میں ہوئی ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی سے یہ الفاظ کہے کہ  ’’جاؤ اپنے دیور کے پاس، میری طرف سے طلاق ہے ، طلاق ہے، طلاق‘‘،  تو  ان الفاظ سے مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ پہلے جملے یعنی ’’جاؤ اپنے دیور کے پاس‘‘سے طلاق کی نیت نہ ہو تب بھی بقیہ جملے ’’میری طرف سے طلاق ہے ، طلاق ہے، طلاق‘‘،سے تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور اگر مذکورہ جملے ’’جاؤ اپنے دیور کے پاس‘‘سے طلاق کی نیت ہو تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوئی اور پھر اس کے بعد والے  صریح جملے ’’میری طرف سے طلاق ہے ، طلاق ہے، طلاق‘‘سے مجموعی طور پر تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔بہردو صورت بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔یہ بھی واضح  رہے کہ الفاظ طلاق کے ساتھ ’’ان شاء اللہ‘‘کہنے سے اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی جب کہ یہ جملہ طلاق کے الفاظ کے ساتھ متصل کہا ہو، کچھ وقفے کے بعد کہنے کی صورت میں (جیسا کہ صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے 8 سے 10 منٹ بعد یہ جملہ کہا )اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور طلاق واقع ہوجائے گی۔

لہذا بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے  ساتھ  حرام ہوچکی ہے،  دونوں کا فوری علیحدہ ہونا ضروری ہے۔ اب شوہر کے لیے رجوع یا تجدید نکاح کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ اگر کسی عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں اور وہ  عورت  تین طلاقوں کے بعد عدت گزار کر  دوسری جگہ نکاح کرلے اور دوسرا شوہر بیوی کے حقوق ادا کرنے کے بعد  از خود طلاق دے  دے یا اس کا انتقال ہوجائے اور اس کی  عدت گزر جائے تو  پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت  ہوگی۔

البحرالرائق میں ہے :

’’(و الصريح يلحق الصريح و البائن) فلو قال لها: أنت طالق، ثم قال: أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني وكذا لو قال لها: أنت بائن أو خالعها على مال ثم قال لها أنت طالق أو هذه طالق كما في البزازية يقع عندنا.‘‘

(البحرالرائق، ج:3،ص:330،ط:دارالمعرفۃ ،بیروت)

المحیط البرہانی میں ہے:

’’أجمع العلماء على أن الصريح يلحق بالصريح ما دامت في العدة، فكذلك البائن يلحق بالصريح، والصريح يلحق بالبائن ما دامت في العدة عندنا‘‘۔

(المحیط البرہانی، ج:3،ص:520،ط:داراحیاء التراث العربی)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :

’’( ولو قال لها : أنت طالق إن شاء الله ، أو ما شاء الله ، أو ما لم يشإ الله ، أو إلا أن يشاء الله لا يقع شيء إن وصل ) والأصل فيه قوله عليه الصلاة والسلام : ' من حلف بطلاق أو عتاق وقال إن شاء الله متصلا به لا حنث عليه ' ولأنه تعليق بشرط لا يعلم وجوده فلا يقع بالشك ، إذ المعلق بالشرط عدم قبله ، وكذا إذا علقه بمشيئة من لاتعلم مشيئته من الخلق كالملائكة والشيطان والجن ؛ ويصح الاستثناء موصولا لا مفصولا لما روينا ، ولأنه إذا سكت ثبت حكم الأول ، فيكون الاستثناء أو التعليق بعده رجوعا عنه فلايقبل.‘‘

(الاختیار لتعلیل المختار ،ج:3،ص:157،ط:دارالکتب العلمیۃ ، بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

(الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر".

(بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ج:3، ص: 187، ط:ایچ ایم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں