بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جواب میں شرعا جائز ہے اور فقط واللہ اعلم لکھنے کی وجہ


سوال

میرے دو سوال ہیں بہت پریشان کر دیا ہے.جواب لازمی دیں:

 1-  میں نے اکثر مسائل کے جواب میں دیکھا ہے اس میں اس طرح کچھ لکھا ہوتا ہے کہ یہ کام شرعاً جائز ہے یا یہ چیز شرعاً حلال ہے تو اس میں لفظ "شرعاً" کا واضح معنی و مفہوم بتائیں؟

2-اور کچھ مسائل  کے آخر میں "فقط وللہ اعلم" لکھا ہوتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب

1- صورت مسئولہ میں سوال کے جواب میں یہ جو لکھا جاتا ہے کہ "یہ کام شرعا ًجائز ہے" یا "یہ کام شرعًا جائز نہیں ہے"، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ  شرعی دلائل کی روشنی میں یہ کام کرنا جائز اور یہ کام کرنا جائز نہیں ہے۔

2- یہ جو فتوی کے آخر میں "فقط واللہ اعلم" لکھا جاتا ہے، یہ فتوی کے آداب میں سے ہے کہ جواب کے  آخر میں  "واللہ اعلم، واللہ الموفق"  وغیرہ لکھا جائے۔

آداب الفتوی للنووی میں ہے:

"قال الصميري: ولا يدع ختم جوابه بقوله: "وبالله التوفيق " أو "والله أعلم"  أو  "والله الموفق"

(آداب الفتوی للنووی، ص: 634، ط: دارالکتاب ناظم آباد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے: 

"وينبغي أن يكتب عقب جوابه والله أعلم أو نحوه وقيل في العقائد يكتب والله الموفق. ونحوه".

(کتاب القضاء، فصل فی المفتی، ج: 6، صفحہ: 292، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں