ضلع و تحصیل مانسہرہ سے تقریبا گھنٹہ ڈیڑھ ( گاڑی کے) کے فاصلے پر ہمارا گاؤں جسگراں پائیں واقع ہے، ہمارے گاؤں کی آبادی تقریبا 2000 افراد کے لگ بھگ ہے، اور وہاں کی اکثریت فقہ حنفی کی پیروکار ہے، اور اکثریت کام کاج کے سلسلے میں دوسرے علاقوں اور شہروں اور ملکوں میں ہوتے ہیں، اور ہمارے گاؤں میں دو دکانیں ہیں راشن کی، اس میں بھی مکمل راشن نہیں ہوتا، اور ایک پرائمری اسکول ہے ، اور کلینک، ڈاک خانہ بھی نہیں ہے، ہمارے گاؤں سے کچھ فاصلے پہ دوسرے بھی گاؤں ہیں، مثلا اوپر کی طرف جسگراں بالا ہے،درمیان میں کھیت، زمینیں اور پہاڑ ہیں، اور ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پہ بڑا گاؤں ہے جہاں بازار بھی ہے جس کو لساں کہا جاتا ہے، جہاں ضرورت کی ساری اشیاء میسر ہیں، ڈاک خانہ، کلینک، اسپتال ، اسکول اور کالج وغیرہ سب موجود ہے۔ اور جسگراں پائیں سے لساں کے بیچ میں ایک آدھ گاؤں بھی ہیں۔ لیکن آبادی متصل نہیں ہے، درمیان میں کھیت، زمینیں وغیرہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے گاؤں جسگراں پائیں میں جمعہ کی نماز شروع کی گئی ہے دو تین سال قبل، کیا وہاں جمعہ کی نماز جائز ہے؟ اور جو اس کو درست نہیں سمجھتا وہ جمعہ کے وقت کیا کرے؟ اور انتشار کئے بغیر اگر اصلاح ہوسکتی ہو تو وہاں کے ذمہ داران اور علماء کی کیا ذمہ داری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گاؤں جسگراں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز نہیں تھا اس لیے جمعہ کی نماز کے بجائے ظہر کی نماز ادا کی جائے اور جمعہ ختم کردیاجائے تاہم اب اگر اسے بند کروانے سے شدید فتنے کا اندیشہ ہو تو پھر اس کو باقی رہنے دیا جائے۔، جو لوگ جمعے کی نماز کو وہاں درست نہیں سمجھتے ان کی سمجھ درست ہے اس لیے وہ ظہر کی نماز اداکریں ۔علماء کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ درست مسئلے سے لوگوں کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھائیں کہ اطاعت اپنی خواہش کو پورا کرنے میں نہیں بلکہ حکم پر عمل درآمد کرنے میں ہے اور جہاں جمعہ جائز ہو وہاں جمعہ ہی قائم کیاجائے لیکن جہاں جمعہ درست نہ ہو وہاں ظہر کی نماز چھوڑنا ہرگزدرست نہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
" وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح."
(کتاب الصلوٰۃ، فصل بیان شرائط الجمعة، ج:1، ص:260، ط:دارالکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
" وفي الخانية المقيم في موضع من أطراف المصر إن كان بينه وبين عمران المصر فرجة من مزارع لا جمعة عليه وإن بلغه النداء وتقدير البعد بغلوة أو ميل ليس بشيء هكذا رواه أبو جعفر عن الإمامين وهو اختيار الحلواني وفي التتارخانية ثم ظاهر رواية أصحابنا لا تجب إلا على من يسكن المصر أو ما يتصل به فلا تجب على أهل السواد ولو قريبا وهذا أصح ما قيل فيه اهـ وبه جزم في التجنيس. قال في الإمداد: تنبيه قد علمت بنص الحديث والأثر والروايات عن أئمتنا الثلاثة واختيار المحققين من أهل الترجيح أنه لا عبرة ببلوغ النداء ولا بالغلوة والأميال فلا عليك من مخالفة غيره وإن صحح اهـ.
أقول: وينبغي تقييد ما في الخانية والتتارخانية بما إذا لم يكن في فناء المصر لما مر أنها تصح إقامتها في الفناء ولو منفصلا بمزارع فإذا صحت في الفناء لأنه ملحق بالمصر يجب على من كان فيه أن يصليها لأنه من أهل المصر كما يعلم من تعليل البرهان والله الموفق."
(کتا ب الصلاۃ، باب الجمعة، مطلب:في شروط وجوب الجمعة، ج:3،ص:30، ط:رشیدیه)
فتاوی دارالعلوم دیوبندمیں ہے:
” اگر وہ دونوں گاؤں عرف میں ایک ہیں ، اور ہی سمجھے جاتے ہیؐ ، اور کل آبادی دونوں گاؤں کی دوہزارآدمیوں کی ہے، اور وہ بڑا قریہ سمجھا جاتا ہے ، تو جمعہ وہاں صحیح ہے”
(کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ ، الباب الخامس عشرفی صلوۃ الجمعۃ، ج:5، ص:56، ط:دارالاشاعت)
وفیه أيضا:
”وہ علیحدہ گاؤں شمار ہوتاہے، اور نام بھی جداہے، اور چوکیدار وغیرہ اس کاعلیحدہ ہے،تو وہ فناء مصر میں شمارنہیں ہوگا، اور جمعہ وہاں صحیح نہیں ہے“
(کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ ، الباب الخامس عشرفی صلوۃ الجمعۃ، ج:5، ص:92، ط:دارالاشاعت)
کفایۃ المفتی میں ہے:
’’اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں‘‘۔
(کتاب الصلاۃ، پانچواں باب، ج:3، ص:187، ط: دارالاشاعت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602102573
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن