بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جاری شدہ جمعہ کو بند کرنے وجہ سے پچھلے جمعوں کا حکم


سوال

قلعہ عبد اللہ میں ایک علاقہ ہے شیلا باغ، اس میں ایف سی کا قلعہ ہے ،قلعہ میں باقاعدہ ایک ونگ ہے ،پہلے ہیڈکوارٹر بھی ہوا کرتا تھا ،اس میں تمام ضروریات مہیا ہوتے تھے ،جب کہ عرصہ سے ونگز کا تبادلہ ہوتا رہتاہے  ،اب ضروریات میں بھی اور نفری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔

پوچھنا یہ ہے: کہ مذکورہ قلعہ میں زمانہ دراز سے  یعنی تقریبا چالیس سال پہلے سے  نماز جمعہ پڑھائی جاتی ہے ،اس میں باقاعدہ امام وخطیب کی اسامی ہوتی ہے ،اور اس میں مختلف علماء کرام کے مختلف ادوار میں تقرری ہوئی ہے ،دس بارہ سال پہلے بعض علماء وعوام نے اعتراض اٹھایا ،کہ یہاں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے ،مسئلہ زبانی پوچھنے کے لیے سن 2007 ء میں یہی لوگ  ایک عالم کے پاس گئے ،مولانا نے فرمایا: کہ قلعہ مذکورہ میں نمازِ جمعہ جائز ہے ،بلکہ قلعہ کے قرب وجوار کے لوگوں کے لیے لازمی ہے ،کہ نماز جمعہ وعیدین میں شرکت کریں، یہ  لوگ  خاموش ہوگئے ،اور نماز جمعہ وعیدین میں شرکت کرنے لگے ،اب پھر چند مہینوں یا دو تین سال سے چند عام لوگ اعتراض  اٹھارہے ہیں ،کہ فلاں مولوی صاحب یا فلاں مفتی صاحب نے کہا ہے: کہ یہاں نماز جمعہ جائز نہیں ہے،جب کہ وہ پہلے لوگ جو کہ پھر بعد میں قائل ہوگئے تھے،اور سرکار یعنی ایف سی والے بضد ہیں ، کہ ہم نے علماء سے پوچھا اور سنا ہے ،کہ جب ایک دفعہ نماز جمعہ شروع ہوجائے تو پھر بند کرنا جائز نہیں ،اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے ،اور ساتھ ساتھ حوالہ بھی دیتے ہیں ، کہ مولانا امداد اللہ مہاجر مکی ؒ اور دیگر علماء ایسی صور ت میں عدمِ ترک کے قائل تھے ،واللہ اعلم

پھر بھی اگر یہاں نمازِ جمعہ بند ہوجائے  عدم جوا ز کی وجہ سے ،تو  یہا ں جتنی نمازیں پڑھی گئی ہوں، ان کا کیا حکم ہے ؟ ان کی قضاء کریں گے ،یا ادا شمار ہوں گی ؟

وضاحت: شیلا باغ کی آبادی تقریبا 450 کے آس پاس ہے ،اور قلعہ میں جس وقت نفری زیادہ تھی، تو اس وقت ونگز میں تقریبا ڈھائی تین ہزار تک آبادی ہوتی تھی ،اب جب نفری کم ہوئی ہے ،تو تقریبا دو سو سے تین سو تک  آبادی ہوتی ہے ،نیز قلعہ شیلا باغ سے تقریبا دو ڈھائی کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ،اور راستہ میں کوئی آبادی بھی نہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے لیے شہر،فناء شہر، قصبہ ،بڑا   گاؤں ہونا شرط ہے ،اور بڑا گاؤں وہ ہے جس کی آبادی  ڈھائی تین ہزار تک ہو ،اور اس کے ساتھ  تمام تر  ضروریات زندگی بسہولت ہمیشہ ملتی ہوں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اب مذکورہ  قلعہ کی آبادی اتنی نہیں رہی ،جو جمعہ کے جواز کے لیے کافی ہو ،اسی لیے اس  قلعہ  میں جمعہ قائم نہ کیا جائے ،البتہ اگر پہلے سے جاری شدہ جمعہ کو بند کرنے میں فتنہ وفساد کا خوف ہو ، تو حکمت کے ساتھ لوگوں کو سمجھایا جائے گا،اگر وہ مان جائیں تو ٹھیک ،ورنہ جمعہ بند نہ کیا جائے ۔

نیز جس وقت جمعہ قائم کیا گیا تھا ،اس وقت آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے جمعہ پڑھنا درست تھا،لہذا اب اگر جمعہ بند کیا جاتاہے ،تو پچھلی جمعہ کی نمازوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔

تنویر الابصار میں ہے:

"ویشترط لصحتها المصر وهو ما لا یسع اکبر مساجده اهله المکلفین بها أوفناءه وهو مااتصل به لأجل مصالحه."

( کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:2، ص:138، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـإلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك. اهـ"


(کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:2، ص:138، ط:سعید)

شرح النووی للمسلم میں ہے:

"عن تميم الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين عامتهم

وأما نصيحة عامة المسلمين وهم من عدا ولاة الأمر فإرشادهم لمصالحهم في آخرتهم ودنياهم وكف الأذى عنهم فيعلمهم ما يجهلونه من دينهم ويعينهم عليه بالقول والفعل وستر عوراتهم وسد خلاتهم ودفع المضار عنهم وجلب المنافع لهم وأمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر برفق وإخلاص والشفقة عليهم وتوقير كبيرهم ورحمة صغيرهم۔"


( کتاب الایمان، باب الدین النصیحة، ج:1، ص:54، ط:قدیمی)

کفایت المفتی میں ہے:

"حنفی مذہب کے موافق قریٰ یعنی دیہات میں جمعہ صحیح نہیں ہوتا اس لئے اگر کسی گاؤں میں پہلے سے جمعہ  قائم  نہیں ہے تو وہاں جمعہ قائم نہ کرنا چاہئے کیونکہ حنفی مذہب کے موافق اس میں جمعہ صحیح نہ ہوگا اور فرض ظہر جمعہ  پڑھنے سے ساقط نہ ہوگا لیکن اگر وہاں قدیم الایام سے  جمعہ قائم ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں یا یہ کہ اسلامی حکومت میں بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہوا تھا تو حنفی مذہب کی رو سے بھی وہاں جمعہ صحیح ہوتا ہے اس لئے بند کرنا درست نہیں،یا یہ کہ بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہونا ثابت نہیں یا یہ معلوم ہے کہ مسلمانوں نے خود قائم کیا تھا مگر ایک زمانہ دراز سے پڑھا جاتا ہے اس صورت میں حنفی مذہب  کے  اصول کے موافق تو اسے بند کرنا چاہئیے یعنی بند کرنا ضروری ہے لیکن چونکہ عرصہ دراز کے قائم شدہ جمعہ کو بند کردینے میں جو فتنے اور مفاسد  پیدا ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اس مسئلے میں حنفیہ کو شوافع کے مذہب پر عمل کرلینا جائز ہے اور جب کہ وہ شوافع کے مذہب پر عمل کرے جمعہ پڑھیں گے تو  پھر ظہر ساقط نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مفاسد لازمہ عمل بمذہب الغیر کے لئے وجہ جواز ہیں ۔"

(کتاب الصلوۃ،باب نماز جمعہ،ج:3،ص: 240، ط:مکتبہ فاروقیہ)

وفیہ ایضاً:

"چھوٹے گاؤں میں جمعہ درست نہیں ہے

(سوال )   ایک موضع میں قریباً ۳۰ آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں د و بار بڑی بازار لگتی ہے سامان ضروری مثلاً کفن وغیرہ ملتا ہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لئے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں اب اس موضع میں شرعاً جمعہ جائز ہے یا نہیں ؟  

(جواب)  اگر نماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تو اب اس کو  بند کرنے میں مذہبی و دینی فتنہ  ہے اس لئے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلے میں امام شافعی کے قول یا  امام مالک کے قول کے موافق عمل کرلینا جائز ہے ۔محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی"


(کتاب الصلوۃ،باب نماز جمعہ،ج:3،ص:  248، ط:مکتبہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں