اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ جملہ کہاہو کہ ـ "جاؤ ماں کو بولو کوئی اور دیکھ لیں تمہارے لیے" تو اس جملہ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے ، نکاح ختم ہوگیا ہے، میاں بیوی باہمی رضامندی سے اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو اس کے لیے باقاعدہ نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح لازمی ہے، اس صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاق کا حق حاصل ہوگا، اور اگر مذکورہ جملہ کہتے ہوئے شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے۔
نیز طلاق واقع ہونے کی صورت میں میاں بیوی میں سے کوئی ایک بھی اگر تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ازدواجی رشتہ قائم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مطلقہ عدت کے بعد کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"( قوله : ابتغي الأزواج ) إن أمكنك وحل لك أو اطلبي النساء إذ الزواج مشترك بين الرجل ، والمرأة أو ابتغي الأزواج لأني طلقتك وتزوجي مثلي، وفي القنية زوج امرأته من غيره لايكون طلاقاً، ثم رقم لآخر إذا نوى الطلاق طلقت، وفيها قبله أنت أجنبية ونوى الطلاق لايقع لأنه رد، وفي حال مذاكرة الطلاق إقرار".
( كتاب الطلاق، باب الكنايات في الطلاق، ج: 3, ص: 326، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
(قوله: والكنايات ثلاثة إلخ) حاصله أنها كلها تصلح للجواب: أي إجابته لها في سؤالها الطلاق منه، لكن منها قسم يحتمل الرد أيضا: أي عدم إجابة سؤالها، كأنه قال لها لا تطلبي الطلاق فإني لا أفعله وقسم يحتمل السب والشتم لها دون الرد، وقسم لا يحتمل الرد ولا السب بل يتمحض للجواب كما يعلم من القهستاني وابن الكمال، ولذا عبر بلفظ يحتمل وفي أبي السعود عن الحموي أن الاحتمال إنما يكون بين شيئين يصدق بهما اللفظ الواحد معا، ومن ثم لا يقال يحتمل كذا أو كذا كما نبه عليه العصام في شرح التلخيص من بحث المسند إليه."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:302، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603103201
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن