بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جاو آپ آزاد ہو، کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ چار سال پہلے میں نے اپنی بیوی  سے کہا تھا کہ میں اپنے ہوش و حواس میں  ہوں،  جاو!  آپ آزاد ہو۔

 کیا اس طرح کہنے سے طلاق واقع ہوگئی ہے؟ شریعت کے مطابق جواب عنایت فرمائیں۔ان الفاظ سےطلاق کی نیت  نہیں تھی اور اس کے بعد اب تک ساتھ رہے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ لفظ 'آزاد' شرعی اعتبارسے طلاق کے وقوع میں نیت کا محتاج نہیں ہے، لہذا چار سال قبل جب سائل نے  مذکورہ الفاظ (میں اپنے ہوش و حواس میں  ہوں،  جاو!  آپ آزاد ہو) کہے  تو اسی وقت   سے سائل کی بیوی پر  ایک طلاق صریح بائن واقع ہوچکی  تھی،نکاح ختم ہوگیا تھا، اس کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں تھا  ۔لہذا  اس کے بعد سے اب تک جتنا عرصہ بغیر تجدید نکاح کے ساتھ رہے اس پر توبہ استغفار کریں،اور  اب اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ضرورری ہوگا، تجدید نکاح  کی صورت میں آئندہ کے لیےسائل  (شوہر) کو دوطلاقوں کاحق حاصل ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):

"(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية"۔

 (ج:3، ص:247، ط: سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) :

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية"۔

(ج:3، ص:252، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں