بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1446ھ 04 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

جانور مر جائے تو حلال کیوں نہیں؟


سوال

اگر بندہ جانور کی جان نکالے تو وہ حلال ہے، اگر قدرتی طور پر جانور کی جان  چلی  جائے تو وہ حلال کیوں نہیں؟

جواب

شرعی احکامات کی تعمیل میں اصل اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جس طرح باری تعالیٰ نے حکم دیا اس کے مطابق بلاچوں چرا،حکمت و مصلحت کی تلاش کیے بغیر عمل کرنا یہ اصل بندگی ہے۔دیگر تمام مخلوقات کی طرح جانوروں کے خالق بھی اللہ تعالیٰ ہیں، لہٰذا وہ جس جانور کو حلال قرار دیں وہی حلال قرار پائے گا، اور جس طرح طریقے سے موت (ذبح) کی صورت میں حلال قرار دیں اسی صورت میں حلال ہوگا، اور جسے اللہ تعالیٰ حرام قرار دیں وہ جانور اور وہ صورت حرام قرار پائے گی۔ جانوروں کے متعلق قرآنِ کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں ان کے حلال وحرام ہونے کی تفصیلات موجود ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو جانور خود مرجائے، خواہ وہ کسی بھی طرح موت کا شکار ہو،چاہے گھلا گھونٹا جائے، گر کر مرجائے وغیرہ الغرض جو جانورمردار ہوجائے وہ حرام ہے، اس کا کھانا جائز نہیں۔ اور جس جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے وہ حلال ہے۔یہ باری تعالیٰ کا حکم ہے، اس لیے اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانور حلال اور مردار جانور حرام ہے۔

سائل نے جو سوال ذکر کیا ہے، کچھ اسی طرح کا سوال مشرکینِ عرب نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کیا تھا، وجہ یہ تھی کہ وہ مردار جانور کھاتے تھے، قرآنِ مجید نے جب اس سے روکا تو انہوں نے اعتراض کیا کہ اپنے ہاتھ سے ذبح کیے ہوئے جانور تو آپ لوگ کھاتے ہیں اور جو جانور اللہ تعالیٰ مار دیں، اسے حرام قرار دیتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے مارا اسے کھاناکیوں کر حرام ہوگا!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے شیطانی وسوسہ  قرار دیا، اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ  ان کی اطاعت نہ کریں، سورہ انعام میں ارشاد ہے:

"فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِهٖ مُؤْمِنِيْنَ١١٨۔وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ۭوَاِنَّ كَثِيْرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَاۗىِٕهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ١١٩"۔

ترجمہ:تو تم کھاؤ اس جانور میں سے جس پر نام لیا گیا ہے اللہ کا ،اگر تم کو اس کے حکموں پر ایمان ہے۔اور تم کو کون امر اس کا باعث ہوسکتا ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر الله کا نام لیا گیا ہوحالانکہ الله تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتلادی ہے جن کو تم پر حرام کیا گیا ہے ،مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجاوے تو حلال ہے ۔اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے غلط خیالات پر بلا کسی سند کے گمراہ کرتے ہیں ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ الله تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے ۔ 

اس آیت کی تفسیر میں تفسیر عثمانی میں ہے :

"مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر چیز کو بالواسطہ یا بلا واسطہ خدا ہی پیدا کرتا اور خدا ہی مارتا ہے۔ پھر جس طرح اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں بعض کا کھانا ہم کو مرغوب اور مفید ہے، جیسے: سیب انگور وغیرہ اور بعض چیزوں سے ہم نفرت کرتے ہیں یا مضر سمجھتے ہیں جیسے ناپاک گندی چیزیں اور سنکھیا وغیرہ۔ اسی طرح اس کی ماری ہوئی چیزیں بھی دو قسم کی ہیں: ایک وہ جن سے فطرت سلیمہ نفرت کرے یا ان کا کھانا ہماری بدنی یا روحی صحت کے لیے خدا کے نزدیک مضر ہو ۔ مثلاً وہ حیوان دموی جو اپنی طبعی موت سے مرے اور اس کا خون وغیرہ گوشت میں جذب ہو کر رہ جائے۔ دوسرے وہ حلال و طیب جانور جو باقاعدہ خدا کے نام پر ذبح ہو یہ بھی خدا ہی کا مارا ہوا ہے، جس پر مسلمان کی چھری کے توسط سے اس نے موت طاری کی۔ مگر عمل ذبح اور خدا کے نام کی برکت سے اس کا گوشت پاک و صاف ہوگیا۔ پس جو شخص دونوں قسموں کو ایک کرنا چاہے وہ معتدی (حد سے بڑھنے والا) ہوگا"۔

تفسیر معارف القرآن میں ہے :

"آگے باقتضائے ایک واقعہ کے ایک خاص امر میں اتباع کرنے سے منع فرماتے ہیں، وہ خاص واقعہ مذبوح وغیر مذبوح کی حلت کا ہے، واقعہ یہ ہے کہ کفار نے مسلمانوں کو شبہ ڈالنا چاہا کہ اللہ کے مارے ہوئے جانور کو تو کھاتے نہیں ہو اور اپنے مارے ہوئے یعنی ذبیحہ کو کھاتے ہو، اخرجہ ابو داود والحکم عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ( بعض مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ شبہ نقل کیا، اس پر یہ آیتیں لَمُشرِکُونَ تک نازل ہوئیں، رواہ ابو داؤد والترمذی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کذا فی اللباب ۔

حاصل جواب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اللہ کے احکام کا التزام کئے ہوئے ہو، اور اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کی تفصیل بتلا دی ہے، پس اس پر چلتے رہو، حلال و حرام ہونے کا اور حرام پر حلال ہونے کا شبہ مت کرو، اور مشرکین کے وساوس کی طرف التفات نہ کرو ۔ 

اور تحقیق اس جواب کی یہ ہے کہ اصول کے اثبات کے لئے دلائلِ عقلیہ درکار ہیں اور بعد ثابت ہو جانے اصول کے اعمال و فروع میں صرف دلائل نقلیہ کافی ہیں، عقلیات کی ضرورت نہیں ، بلکہ بعض اوقات مضر ہے کہ اس سے شبہات کے دروازے کھلتے ہیں کیوں کہ روبرو واقناعیات و خطابیات کا تبرعاً پیش کر دینا مضائقہ نہیں، لیکن جب یہ بھی نہ ہو بلکہ مجادلہ ہو تو اپنے کام میں لگنا چاہئے، اور معترض کی طرف التفات نہ کرنا چاہئے، ہاں اگر معترض کسی فرع کا عقلی قطعی دلیل کے مخالف ہونا ثابت کرنا چاہئے تو اس کا جواب بذمہ مدعی حق ہوگا، مگر مشرکین کے شبہ میں اس کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس جواب میں صرف مسلمانوں کو بقاعدہ مذکورہ بالا خطاب ہے، کہ ایسی خرافات پر نظر مت کرو ، حق کے معتقد اور عامل رہو، اس بناء پر اس مقام میں مشرکین کے شبہ کا جواب صراحةً مذکور نہ ہونا محلِ شبہ نہیں ہوسکتا، مگر اس پر بھی اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے، جہاں کُلُوا میں ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ اور لَا تَاْكُلُوْا میں لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ مذکور ہے، اور یہ عادت سے اور دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ ذبح کے وقت ہوگا اور لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ کے تحقیق کی دو صورتیں ہوں گی، عدم ذبح جو نجس خون کو نکال کر نجات سے پاک کر دیتا ہے، اور وہ نجاست ہی سبب ممانعت تھی، دوسرے اللہ کا نام لینا کہ مفیدِ برکت ہے جو کہ حیوانات دمویہ میں شرط حلت ہے، اور کسی چیز کے وجود کے لئے مانع کا دور کرنا شرط کا وجود دونوں امر ضروری ہیں، پس اس مجموعہ سے حلّت ثابت ہوگی"۔

قرآن کریم کی سورہ انعام آیت 118،119 میں حق تعالیٰ مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کو اس وسوسے میں ڈالنے کہ :اپنا ذبیحہ کھاتے ہو اور جو جانور مر جائے وہ تم نہیں کھاتے،کا ذکر فرمایا ہے ، اور مشرکین کے اشکال کی تردید فرمائی ہے، اوریہ تعلیم دی ہے کہ جانور کے حلال ہونے میں اصل یہ ہے کہ خالق کے نام پر اسے ذبح کیاجائے ، تب ایسا جانور حلال ہوگا، اور جب خالق کے نام پر اس کے حکم کی تعمیل میں جانور ذبح کردیا گیا اب اس کی حلت میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں، اور اب ایسے جانور کے کھانے سے مسلمان کیسے اپنے آپ کو روک سکتا ہے ؟!

حاصل یہ ہے کہ جانور کی حلت کا مدار باری تعالیٰ کا حکم ہے ، اور وہ حکم الٰہی یہ ہے کہ اسی کے نام پر جانور ذبح کیاجائے تب حلال ہوگا، اب اگر جانور مذبوح بھی ہو لیکن غیرمسلم نے ذبح کیا ،یاکسی مسلمان نے اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا ایسا جانور ذبح ہونے کے باوجود حلال نہیں ، اور اس کا حکم اور مردار کا یکساں ہے کہ دونوں حرام ہیں۔

ملاحظہ ہو:

"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ "۔(المائدہ:3)

ترجمہ:حرام ہوا تم پر مردہ جانور   اور لہو  اور گوشت سور کا اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا اور جو مر گیا ہو گلا گھونٹنے سے یا چوٹ سے یا اونچے سے گر کر یاسینگ مارنے سے اور جس کو کھایا ہو درندہ نے مگر جس کو تم نے ذبح کر لیا ۔(عثمانی)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع  دیوبندی رحمہ اللہ تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں :

"یہ سورہ مائدہ کی تیسری آیت ہے۔ جس میں بہت سے اصول اور فروعی احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ۔ پہلا مسئلہ حلال و حرام جانوروں کا ہے۔ جن جانوروں کا گوشت انسان کے لئے مضر ہے، خواہ جسمانی طور پر کہ اس سے انسان کے بدن میں بیماری کا خطرہ ہے، یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کو قرآن نے خبائث قرار دیا اور حرام کر دیا، اور جن جانوروں میں کوئی جسمانی یا روحانی مضرت نہیں ہے، ان کو طیب اور حلال قرار دیا۔ 

اس آیت میں فرمایا ہے کہ حرام کئے گئے تم پر مردار جانور۔ مردار سے مُراد وہ جانور ہیں جو بغیر ذبح کے کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت سے مر جائیں ۔ ایسے مُردار جانور کا گوشت ”طبعی“ طور پر بھی انسان کے لئے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔

البتہ حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ایک ”مچھلی“ دوسرے ٹڈی۔ یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی وغیرہ نے روایت کی ہے۔

دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے، اور قرآن کریم کی دوسری آیت میں اودما مسفوحا فرما کر یہ بتلا دیا گیا، کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے۔ اس لئے جگر اور تلی باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔ حدیث مذکور میں جہاں ”میتہ“ سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ فرمایا ہے۔ اسی میں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ 

تیسری چیز ”لحم خنزیر“ ہے۔ جس کو حرام فرمایا ہے۔ لحم سے مراد اس کا پورا بدن ہے ۔ جس میں چربی، پٹھے وغیرہ سب ہی داخل ہیں ۔ 

چوتھے وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو ۔ پھر اگر ذبح کے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام لیا ہے تو وہ کھُلا شرک ہے۔ اور یہ جانور باتفاق مردار کے حکم میں ہے۔

جیسا کہ مشرکین عرب اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔ یا بعض جاہل کسی پیر فقیر کے نام پر، اور اگر بوقت ذبح نام تو اللہ تعالیٰ کا لیا ، مگر جانور کسی غیر اللہ کے نام پر نذر کیا ہو اور اس کی رضامندی کے لئے قربان کیا ہے تو جمہور فقہاء نے اس کو بھی ما اھل لغیر اللہ بہ، کے تحت حرام قرار دیا ہے۔

پانچویں ۔ منخنقة۔ یعنی وہ جانور حرام ہے جو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہو ہو یا خود ہی کسی جال وغیرہ میں پھنس کر دم گھٹ گیا ہو ۔ اگرچہ منخنقہ، اور موقوذة بھی میتہ کے اندر داخل ہیں، مگر اہل جاہلیت ان کو جائز سمجھتے تھے۔ اس لئے خصوصی ذکر کیا گیا۔ 

چھٹے۔ موقوذة ، یعنی وہ جانور جو ضرب شدید کے ذریعہ ہلاک ہوا ہو ۔ جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے مارا گیا ہو ۔ اور جو تیر کسی شکار کو اس طرح قتل کر دے کہ دھار کی طرف سے نہ لگے ویسے ہی ضرب سے مر جائے وہ بھی موقوذة میں داخل ہو کر حرام ہے۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں بعض اوقات ”معراض“ تیر سے شکار کرتا ہوں ۔ اگر شکار اس سے مر جائے تو کیا کھا سکتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ جانور عرض تیر کی چوٹ سے مرا ہے تو وہ موقوذة میں داخل ہے اس کو مت کھا (اور اگر دھار کی طرف سے لگا ہے اور اس نے زخم کر دیا ہے تو کھا سکتے ہو ۔ یہ روایت جصاص نے ”احکام القرآن“ میں اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ تیر پھینکنے کے وقت بسم اللہ کہہ کر پھینکا گیا ہو ۔ 

جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔ اس کو بھی فقہاء نے موقوذہ میں داخل اور حرام قرار دیا ہے۔ امام جصاص رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے: المقتولة بالبندقة تلک الموقوذہ۔ یعنی بندوق کے ذریعہ جو جانور قتل کیا گیا ہے وہ ہی موقوذہ ہے اس لئے حرام ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شافعی، مالک وغیرہ سب اس پر متفق ہیں ۔ (قرطبی) ساتویں متردیہ۔ یعنی وہ جانور جو کسی پہاڑ، ٹیلہ یا اونچی عمارت یا کنوئیں وغیرہ میں گر کر مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شکار پہاڑ پر کھڑا ہے، اور تم نے تیر بسم اللہ پڑھ کر اس پر پھینکا اور وہ تیر کی زد سے نیچے گر کر مر گیا تو اس کو نہ کھاؤ ۔

کیونکہ اس میں بھی احتمال ہے کہ اس کی موت تیر کی زد سے نہ ہو گرنے کے صدمہ سے ہو تو وہ مُتردّیہ میں داخل ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی پرندہ پر تیر پھینکا، وہ پانی میں گر گیا تو اس کے کھانے کو بھی اسی بناءپر منع فرمایا ہے کہ وہ بھی احتمال ہے کہ اس کی موت ڈوبنے سے واقع ہوئی ہو ۔ (جصاص)۔

آٹھویں ۔ نطیحہ ۔ یعنی وہ جانور جو کسی ٹکر اور تصادم سے ہلاک ہو گیا ہو ۔ جیسے ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آکر مر جائے یا کسی دوسرے جانور کی ٹکر سے مرجائے۔

نویں ۔ وہ جانور جس کو کسی درندہ جانور نے پھاڑ دیا ہو اس سے مر گیا ہو ۔ 

اِن نو اقسام کی حرمت بیان فرمانے کے بعد ایک استثناء ذکر کیا گیا۔ فرمایا: الا ما ذکیتم ۔ یعنی اگر ان جانوروں میں سے تم نے کسی کو زندہ پالیا اور ذبح کر لیا تو وہ حلال ہوگیا۔ اس کا کھانا جائز ہے۔

یہ استثناء شروع کی چار قسموں سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ میتہ اور دَم میں تو اس کا امکان ہی نہیں ۔ اور خنزیر اور ما اھل لغیر اللہ ۔ اپنی ذات سے حرام ہیں، ذبح کرنا نہ کرنا ان میں برابر ہے۔ اسی لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حسن بصری ، قتادہ وغیرہ سلف صالحین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ استثناء ابتدائی چار کے بعد ، یعنی منخنقہ اور اس کے مابعد سے متعلق ہے۔ اس لئے مطلب اس کا یہ ہوگیا کہ ان تمام صورتوں میں اگر جانور زندہ پایا گیا، زندگی کی علامتیں محسوس کی گئیں اور اسی حالت میں اس کو اللہ کے نام پر ذبح کر دیا گیا تو وہ حلال ہے۔ خواہ وہ منخنقہ ہو، یا موقوذہ یا متردیہ اور نطیحہ یا جس کو درندے نے پھاڑ ڈالا ہے۔ ان میں سے جس کو بھی آثارِ زندگی محسوس کرتے ہوئے ذبح کر لیا وہ حلال ہوگیا"۔

 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں