بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غریب شخص کا قربانی کے لیے خریدا گیا جانور فروخت کرنا


سوال

ایک غریب آدمی  نے قربانی کے  لیے بکرا  رکھاہے،  مگرکسی مجبوری کی وجہ سے بکرا فروخت کرکے رقم استعمال کر نا چاہتاہے؟مثلاً بیماری کے علاج کے لیے سود پر پیسہ لینا ہوگا تو کیا ایسے شخص کے لیے قربانی کے فروخت شدہ بکرے کی رقم استعمال کرنا درست ہوگا؟ 

جواب

اگر کسی غریب شخص نے  جس پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کے لیے جانور خرید لیا یعنی خریدتے وقت قربانی کی نیت کی تھی ،تو اب اس غریب شخص پر اس جانور کی قربانی لازم ہے، اس جانور کو فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

موجودہ دور  میں علاج معالجہ کے لیے کئی فلاحی ادارے/ ہسپتال موجود ہیں ، نیز بعض ہسپتالوں میں علاج کے لیے خرچ کی ضرورت نہیں پڑتی ، اس لیے ایسے شخص کو بیماری کے علاج کے لیے سود پر رقم لینے کے بجائے کوئی اور جائز طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔سود لینا اور دینا  شرعاً ناجائز ہے۔

اور اگر جانور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی، بلکہ بعد میں غریب آدمی نے اس جانور میں قربانی کی نیت کی ہے اور زبان سے الفاظ کہہ کر اس جانور کو قربانی کے لیے خاص نہیں کیا، تو اب اس جانور کا  فروخت کرنا ممنوع نہیں، اپنی ضرورت کے لیے اسے  بیچ سکتا ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 321):

" قوله: (شراها لها) فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب لأن النية لم تقارن الشراء فلاتعتبر، بدائع. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء و هذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، و هو النذر بالتضحية عرفًا كما في البدائع."

-امدادالفتاویٰ 3/543مکتبہ دارالعلوم کراچی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں