بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، جنات اور انسانوں کی ارواح میں فرق


سوال

جانوروں، پرندے، کیڑے مکوڑے، جنات اور انسانوں کی ارواح میں فرق کیا ہے ۔اور یہ ارواح کس سے بنی ہے؟

جواب

روح اللہ تعالی کے رازوں میں سے ایک راز ہے، اس کی حقیقت وماہیت اللہ تعالی ہی جانتے ہیں، اور اللہ تعالی کے حکم سے بنی ہوئی ہے، باقی اس سے بھی آگے  سمجھنے کے لئے اللہ نے ہمیں حکم نہیں دیا ہے۔ عام روح میں جانور ، پرندے ، کیڑے مکوڑے ، جنات اور انسان سب برابر ہیں، البتہ انسان کو ایک الگ روح دی گئی ہے، وہ روح ربانی ہے، اس وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہیں، اور آخرت میں  جزا وسزا ہے، اسی کا  اشارہ "مِن أمر ربي" اور"ألست بربكم"  میں کیا گیا ہے، اس روح ربانی سے جانور پرندے وغیرہ خالی ہے۔

روح کے بارے میں  آپ علیہ الصلاة والسلام سے بھی سوال هوا تھا کہ روح کی حقیقت وماہیت کیا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی:﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾(سورة بنی اسرائیل الآیة:85)  ترجمہ: اوریہ لوگ  آپ سے روح کو پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ: روح  میرے رب کے حکم سے بنی ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ (از بیان القرآن)

   البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان، جنات اور کیڑے مکوڑوں کی ارواح میں فرق ہے، ہر ایک کی روح اس کے  درجہ کے اعتبار سے ہے،انسان اشرف المخلوقات ہے تو  انسان کی روح  بھی سب سے افضل واعلی ہوگی لیکن اس قسم کے بحثوں میں اپنی صلاحیتیں لگانے کے بجائے ہمیں اپنی صلاحیتیں عملی مسائل میں لگانی چاہیے۔علامه حافظ ابن حجر(852) رحمه الله  لکھتے ہیں:

" والنفخ بمعنى الخلق أي خلق فيك الروح".

(فتح الباري لابن حجر: باب تحاج آدم وموسى عند الله (11/ 507)،ط. دار المعرفة - بيروت ، 1379)

التفسیر الواضح میں ہے:

" وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي [الإسراء 85] ،نعم.. الروح سر من أسرار الله لا يعلم كنهها إلا خالقها."

( التفسير الواضح: سورة الحجرات، (2/ 281)،ط۔دار النشر : دار الجيل الجديد)

إحیاء علوم الدین میں ہے:

"نعم، لا يمكن كشف الغطاء عن كنه حقيقة الموت إذ لا يعرف الموت من لا يعرف الحياة، ومعرفة الحياة بمعرفة حقيقة الروح في نفسها وإدراك ماهية ذاتها، ولم يؤذن لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يتكلم فيها ولا أن يزيد على أن يقول: ﴿الروح من أمر ربي﴾ فليس لأحد من علماء الدين أن يكشف عن سرّ الروح وإن اطلع عليه وإنما المأذون فيه ذكر حال الروح بعد الموت".

(إحیاء علوم الدین«كتاب المراقبة والمحاسبة»، «المقام الأول من المرابطة: المشارطة» (4/495)،ط۔ دار المعرفة، بيروت)

مولانا سعید احمد پالنپوری صاحب رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

"واعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم لما سئل عن حقيقة الروح أنزل الله تعالى: ﴿قل الروح من أمر ربي﴾ فأشار إلى: أنها من عالَم الأمر دون عالَم الخلق، وقال تعالى: ﴿ألا له الخلق والأمر﴾ (الأعراف، الآية: 54) فالبدن من عالَم الخلق المشهود، والروح من عالم الأمر غير المشهود، وليس في مقدرتنا أن نفهم من حقيقتها أكثر من هذا".

(تعليق الشيخ سعيد أحمد البالنبوري على هامش حجة الله البالغة: باب حقيقة الروح (1/ 76)،ط. زمزم ببلشرز كراتشي باكستان،2006م)

 ابو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى (المتوفى: 817ھ) لکھتے ہیں:

"وأَمَّا حقيقة الرّوح فهى لطيفة ربّانيَّة، وعُنصر من عناصر العالَم العلوىِّ تتصل بمدَدٍ ربَّانىّ إِلى العالم السُّفلىّ. وعلى حسب درجة الحيوانات وتفاوت الحالات التى لهم تتَّصل بهم. ولما كان الإِنسان فى الصّورة والصّفة والمعنى أَكمل من جميع الحيوانات كان المتَّصل به من ذلك أَفضل الأَرواح. وليس لأَحد من العالمين وقوف على سرِّ تلك اللَّطيفة وحقيقته، والله سبحانه المنفرد بعلم ذلك".

(بصائر ذوي التمييز في لطائف الكتاب العزيز لأبی طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى (المتوفى: 817هـ): «الباب الحادى عشر فى الكلمات المفتتحة بحرف الراء» «بصيرة فى الروح» (۳/ ۱۰6)، ط۔ المجلس الأعلى للشئون الإسلامية - لجنة إحياء التراث الإسلامي، القاهرة)

التفسیر القرآنی للقرآن میں ہے:

"وإنه إذا كان لاحديث للعلم فى هذا الأمر الغيبىّ، فإن المشاهدة تدعونا إلى القول بأن الأرواح التي تلبس الكائنات الحية- بما فيها الإنسان- ليست على درجة واحدة من القوة التي تنبعث منها فى الكائن الحي، وفى الآثار التي تحدثها فيه..ففى عالم الحيوان مثلا.. نجد من الحيوانات مالا تكاد تحسّ فيه الحياة، كالديدان مثلا، كما نجد حيوانات تكاد تعقل، كالقردة.. وبين هذه وتلك أنماط كثيرة من الحيوات التي تلبس عالم الحيوان..وهذا يعنى أن اختلافا ما بين روح وروح إن لم يكن فى النوع ففى القدر، وفى الدرجة."

( سورة الزمر،تفسيىر الآیة: (41 الى 46)، (12/ 1164)،ط. دار الفكر العربي - القاهرة)

تفسیرکبیر میں ہے:

"(وأن عليه النشأة الأخرى) (47): وهي في قول أكثر المفسرين إشارة إلى الحشر، والذي ظهر لي بعد طول التفكر والسؤال من فضل الله تعالى الهداية فيه إلى الحق، أنه يحتمل أن يكون المراد نفخ الروح الإنسانية فيه۔۔۔۔ وبهذا الخلق الآخر تميز الإنسان عن أنواع الحيوانات، وشارك الملك في الإدراكات فكما قال هنالك: أنشأناه خلقا آخر بعد خلق النطفة قال هاهنا: وأن عليه النشأة الأخرى فجعل نفخ الروح نشأة أخرى كما جعله هنالك إنشاء آخر، والذي أوجب القول بهذا هو أن قوله تعالى: وأن إلى ربك المنتهى [النجم: 42]."

(مفاتیح الغیب:  سورة النجم، (۲۹/ ۲4۱)،ط.دار إحياء التراث العربي – بيروت،الطبعة:الثالثة: 1420هـ)

مولانا عاشق الہی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"چونکہ احکام شرعیہ میں سے بندوں سے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو روح کی حقیقت جاننے پر موقوف ہو، اس لئے اس کی حقیقت جاننے کی درپے ہونے کی شرعا کوئی ضرورت بھی نہیں"۔

(انوار البیان: سورہ بنی اسرائیل (3/ 391)،ط۔ دارالحسنی، لاہور، اشاعت اول: 2019)     

                                                                                               فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں