ایک بڑے بھینسوں کے باڑے کی صفائی کے دوران حامد نے بھینسوں کے پانی پینے والے حوض سے جس کی لمبائی26 فٹ اور چوڑائی اور گہرائی4 فٹ تھی سے بالٹی بھر کر پانی نکالا جو ابھی تازہ پانی بھرنے کی وجہ سے اوپر تک بھرا ہوا تھا۔ اس نے اس پانی سے بھینسوں کو نہلایا اور باڑے کے فرش کی صفائی کی۔ اس دوران اس بالٹی کے پانی میں سے کافی سارا پانی اس کے اوپر بھی گرتا رہا۔ ابھی وہ پوری طرح فرش کی صفائی نہیں کرسکا تھا کہ سامنے سے بھینس کھل کر اس کی طرف آنے لگی۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے دوڑ لگائی اور کئی مرتبہ نیچے پڑے ہوئے پانی میں سلپ ہوا جس سے اس کے سارے کپڑوں پر نیچے جمع شدہ پانی کافی مقدار میں لگ گیا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اسی حوض میں چھلانگ لگادی جس سے وہ پانی نکال رہا تھا۔ بھینس سے چھپنے کے لیے وہ حوض میں گردن تک بیٹھ گیا تاکہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ اتنی دیر میں دوسرے ورکر نے اس بھینس کو پکڑ کر باندھ دیا۔ حامد حوض سے نکلا تو پورا پانی سے نہایا ہوا تھا۔ اور اس کے کپڑے بری طرح بھیگے ہوئے تھے۔ اس نے تازہ پانی اپنے سر پر ڈالا اور منہ ہاتھ دھو کر دوبارہ صفائی میں جت گیا۔ صفائی سے فارغ ہوتے ہوتے اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ اب اسے یاد ہے کہ وہ کئی بار گندگی میں پھسلا،اور جانوروں کے گھاٹ سے پانی نکالتے ہوئے بھی اس پر بہت سا پانی گرا ہے،ایسی صورت میں کیا وہ اسی حالت میں نماز ادا کرسکتا ہے؟
صورت مسئولہ میں جب زمین پر گرنے کی وجہ سے حامد کے کپڑے ناپاک ہوگئے تھے اور اس نے مذکورہ حوض جس کی مقدار 225 اسکوائر فٹ سے کم ہے، چھلانگ لگائی تو حامد اور اس کے کپڑے ناپاک ہی رہے تھے اگر چہ اس نے بعد میں ہاتھ منہ دھو لیا،لہٰذا اس کے لیے اسی حالت میں نماز ادا کرنا درست نہ تھا،اب اس نماز کا اعادہ کرلے۔
فتاوی سراجیہ میں ہے:
"الحوض إذا کان عشرًا في عشر جاز التوضئ منه والاغتسال فیه."
(الفتاوی السراجیة، ص:04، ط:سعید)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
"الحوض الکبیر مقدار بعشرة أذرع في عشرة أذرع و علیه الفتوی."
(خلاصة الفتاوی،1/ 6 ط:مکتبة رشیدیة)
حلبی کبیر میں ہے:
"وإذا کان الحوض عشراً في عشر فهو کبیر لایتنجس بوقوع النجاسة ... إذا لم یرلها أثر". ( حلبي کبیر، فصل في أحکام الحياض، ص: ۹۸، ط سهیل أکادمي، لاهور)
"الحوض إذا کان عشراً فی عشرٍ أي طوله عشرة أذرع وعرضه کذلک، فیکون وجه الماء مائة ذراع."
(فصل في أحکام الحیاض، ص97: ط سهیل أکادمي، لاهور)
ہدایہ میں ہے:
"قال: " والماء المستعمل: هو ماء أزيل به حدث أو استعمل في البدن على وجه القربة " قال رضي الله عنه: وهذا عند أبي يوسف رحمه الله وقيل هو قول أبي حنيفة رحمه الله أيضا وقال محمد رحمه الله لا يصير مستعملا إلا بإقامة القربة لأن الاستعمال بانتقال نجاسة الآثام إليه وأنها تزال بالقرب وأبو يوسف رحمه الله يقول إسقاط الفرض مؤثر أيضا فيثبت الفساد بالأمرين ومتى يصير الماء مستعملا الصحيح أنه كما زايل العضو صار مستعملا لأن سقوط حكم الاستعمال قبل الانفصال للضرورة ولا ضرورة بعده والجنب إذا انغمس في البئر لطلب الدلو فعند أبي يوسف رحمه الله تعالى الرجل بحاله لعدم الصب وهو شرط عنده لإسقاط الفرض والماء بحاله لعدم الأمرين وعند محمد رحمه الله تعالى كلاهما طاهران الرجل لعدم اشتراط الصب والماء لعدم نية القربة وعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى كلاهما نجسان الماء لإسقاط الفرض عن البعض بأول الملاقاة والرجل لبقاء الحدث في بقية الأعضاء وقيل عنده نجاسة الرجل بنجاسة الماء المستعمل وعنه أن الرجل طاهر لأن الماء لا يعطى له حكم الاستعمال قبل الانفصال وهو أوفق الروايات عنه."
(كتاب الطهارات،باب: الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز،1/ 23،ط:دار احياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144401101614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن