بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جانوروں کی افزائش اور عمدہ نسل کے لیے ٹیکوں کی خرید و فروخت کرنا/ بٹیر کی شکار کا ایک خاص طریقہ


سوال

1- زید  خالد سے کپڑا یا کوئی چیز خریدتا ہے، توخالد کہتاہےکہ اگر  نقد لوگے،توایک میٹر 200روپے کا، اور اگر ادھار لوگے تو  300روپے کا، یعنی کسی بھی چیز کو ادھاربیچنے کی صورت میں نقد سے بڑھا کر بیچنا کیساہے؟

2- بٹیر کے شکار کےلیے جنگل میں پہلےسے ریکارڈ شدہ آواز لگائی جاتی ہے،اور شکاری رات کے وقت جال لگاکر چلے جاتے ہیں، تو جوبھی بٹیر جال  میں پھنس  جاتاہے، تو یاتو تڑپ تڑپ کر مرجاتاہے،یا دوسرے  جانور اسے شکار کرکے کھالیتے ہیں، اور یاصبح جب شکاری دیرسے آجاتے ہیں،تو وہ اس کو پکڑ  لیتے ہیں، تو  شرعاً اس طریقہ پر پرندوں کا  شکار کرنا کیساہے؟

3- جانوروں کی افزائش کے لیے جفتی کرانے پرنرجانورکے مالک کا اجرت لینا، اور اسی طر ح افز ائش اور عمدہ نسل کےلیے ٹیکے کی خرید وفروخت شرعاً جائز ہے؟

جواب

1- واضح رہے کہ  کسی چیز کو نقد میں کم قیمت پر اور ادھار پر زیادہ قیمت میں فروخت کرنا جائز ہے،البتہ جس وقت سودا مکمل ہورہاہو، توادھار یانقد دونوں کی قیمتوں میں سے ایک کی تعیین کرناضروری ہے؛لہذا صورت مسئولہ میں ایک گز کپڑا200روپے میں اور ادھار300 روپے میں بیچنا جائز ہے،البتہ دوقیمتوں میں سے ایک قیمت طے کرکے سودا مکمل کرناضروری  ہے۔

2- جال  بچھاکر شکار کرناجائز ہے،تاہم شکار کے لیے ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے کہ جس میں شکار کو تکلیف بھی کم ہو، اور شکاربے جا مردار ہوکر ضائع بھی نہ ہو؛لہذا مذکورہ طریقہ پر بٹیر کا شکار کرناجائز ہے، تاہم شکار یوں کو چاہیے کہ وہ صبح جلد آنے کی کوشش کرے،تاکہ شکارجال میں پھنسنے کے باعث بے جا تکلیف میں نہ رہے۔

3- جفتی  کرانے پر نر جانور کے مالک کا اجرت لیناشرعی طور پر جائز نہیں ہے،البتہ جانوروں کی افزائش اور عمدہ نسل  کے لیے ٹیکے خریدنا اور فروخت کرنا جائز ہے،تاہم حلال جانورکوبلاوجہ ٹیکوں کے ذریعہ  حاملہ کرنا خلافِ فطرت عمل ہے،یہ شرعاً مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، جس سے اجتناب کرناچاہیے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"ّ(وصح بثمن حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع ."

(كتاب البيوع،٥٣١/٤،ط:سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"أجاز الشافعية والحنفية والمالكية والحنابلة وزيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور: بيع الشيء في الحال لأجل أو بالتقسيط بأكثر من ثمنه النقدي إذا كان العقد مستقلا بهذا النحو، ولم يكن فيه جهالة بصفقة أو بيعة من صفقتين أو بيعتين، حتى لايكون بيعتان في بيعة. قال ابن قدامة في المغني: البيع بنسيئة ليس بمحرم اتفاقا ولايكره. فإذا تم الاتفاق في الحال على شراء هذه الآلة أو السلعة بألف ومئة لأجل أو بالتقسيط، مع أن سعرها النقدي ألف، جاز البيع وإن ذكر في المساومة سعران: سعر للنقد وسعر للتقسيط، ثم تم البيع في نهاية المساومة تقسيطا."

(‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية،‌‌الفصل الأول: عقد البيع،‌‌المبحث الرابع ـ البيع الباطل والبيع الفاسد،٣٤٦١/٥،ط:دار الفكر)

تنویر الابصار میں ہے:

"(أخذ الطير ليلا مباح والأولى عدم فعله) خانية."

(كتاب الصيد، ٤٧٤/٦، ط:سعيد)

الدر مع الرد میں ہے:

"(هو مباح) بخمسة عشر شرطا مبسوطة في العناية، وسنقرره في أثناء المسائل (إلا) لمحرم في غير المحرم أو (للتلهي) كما هو ظاهر (أو حرفة) على ما في الأشباه. قال المصنف: وإنما زدته تبعا له، وإلا فالتحقيق عندي إباحة اتخاذه حرفة لأنه نوع من الاكتساب، وكل أنواع الكسب في الإباحة سواء على المذهب الصحيح كما في البزازية وغيرها.(نصب شبكة للصيد ملك ما تعقل بها...). (قوله على المذهب الصحيح) قال بعده في التتارخانية. وبعض الفقهاء قالوا: الزراعة مذمومة، والصحيح ما ذهب إليه جمهور الفقهاء: ثم اختلفوا في التجارة والزراعة أيهما أفضل. وأكثر مشايخنا على أن الزراعة أفضل اهـ وفي الملتقى والمواهب: أفضله الجهاد، ثم التجارة، ثم الحراثة، ثم الصناعة اهـ.

أقول: فالمراد من قولهم كل أنواع الكسب في الإباحة سواء أنها بعد أن لم تكن بطريق محظور لا يذم بعضها وإن كان بعضها أفضل من بعض تأمل. ثم إن كل نوع منها تارة يتخذه الإنسان حرفة ومعاشا وتارة يفعله وقت الحاجة في بعض الأحيان، وحيث كان الاصطياد نوعا منها دل على إباحة اتخاذه حرفة ولا سيما مع إطلاق الأدلة. وعبارات المتون: والكراهة لا بد لها من دليل خاص، وما قيل إن فيه إزهاق الروح وهو يورث قسوة القلب لا يدل على الكراهة، بل غايته أن غيره كالتجارة والحراثة أفضل منه.

وفي التتارخانية قال أبو يوسف: إذا طلب الصيد لهوا ولعبا فلا خير فيه وأكرهه، وإن طلب منه ما يحتاج إليه من بيع أو إدام أو حاجة أخرى فلا بأس به اهـ."

(كتاب الصيد، ٤٦٢/٦، ط:سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (لا أجرة عسب التيس) يعني لا يجوز أخذ أجرة عسب التيس لقوله - عليه الصلاة والسلام - «إن من السحت عسب التيس ومهر البغي» ؛ ولأنه عمل لا يقدر عليه وهو الإحبال فلا يجوز أخذ الأجرة عليه ولا أخذ المال بمقابلة الماء وهو نجس لا قيمة له فلا يجوز والمراد هنا استئجار التيس لينزو على الغنم ويحبلها بأجر أما لو فعل ذلك من غير أجر لا بأس به؛ لأن به يبقى النسل."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ٢١/٨، ط:دار الكتاب الإسلامي)

البحرالرائق  میں ہے:

"أجزنا ‌بيع ‌السرقين والبعر مع نجاسة عينهما لإطلاق الانتفاع بهما عندنا ."

(كتاب البيع، ١٨٧/٦، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں