بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانوروں میں شرکت کا حکم


سوال

گائے، بھینس، بکری وغیرہ نیم گوئی پر دینے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیے یعنی زید نے بکری وغیرہ خالد کو دی اور کہاچار سال اس کو خوب کھلاو، خوب چراؤ، چار سال بعد جتنے بھی ہوئے، انہیں آدھی آدھ تقسیم کریں گے؛ لیکن اصل بکریاں میری ہوں گی ان کے فرع یعنی بچے وغیرہ وہ چاہے جتنے بھی ہوں انہیں تقسیم کریں گے کیا اس طرح کرناجائز ہے؟پھر چاہے ایک بکری گائے وغیرہ دی ہو یا دس یا سو۔

جواب

صورت مسئولہ میں جانوروں کو شرکت پر دینے کی  مذکورہ صورت مذہب حنفی کے مطابق شرعاً  فاسد ہے  ،اس صورت میں    بچے مالک کے ہوں گے اور پالنے والے کو اجرت مثل ملے گی، البتہ اس کے جواز کی متبادل صورتیں یہ ہیں :

1.ایک صورت تو یہ ہے کہ جانور پالنے والے کو کرایہ پر پالنے کے لیے دےدے اور اس کی اجرت متعین کرلے تو اس صورت میں دودھ ،بچے سب مالک کے ہوں گے۔

2. مالک جانور کا آدھا حصہ آدھی قیمت پر  پالنے والے کو  بیچ کر   وہ پیسے معاف کردے تو  دونوں کے درمیان وہ جانور مشترک ہوجائے گا پھر دونوں اس مشترک جانور کے دودھ اور بچوں میں برابر کے شریک ہوں گے ۔

3. مذکورہ  شخص اور  پالنے والا دونوں پیسے ملاکر جانور  خریدیں اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا اسی طرح مالیت کے حساب سے دودھ اور بچوں میں بھی شریک ہوں گے ۔

لیکن یہ تفصیل اس وقت ہے کہ جب مذکورہ معاملہ نہ کیا گیا ہو لیکن اگر کسی نے ایسا معاملہ کرلیا ہو اور وہ جگہ ایسی ہو کہ جہاں اس قسم کا معاملہ کیا جاتا ہو تو پھر ابتلائے   عام  کی وجہ سے فقہ حنبلی کی رو سے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا لیکن ابتداءاً ایسا معاملہ نہ کیا جائے ۔

خلاصۃ الفتاوی میں ہے :

"رجل دفع بقرة إلي رجل بالعلف مناصفة،وهي اللتي تسمي بالفارسية" كاونيم سوو"بأن دفع علي أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان ،فهذا فاسد والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة."

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:114،قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ولا خلاف في شركة الملك أن الزيادة فيها تكون على قدر المال حتى لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع."

(کتاب الشرکۃ،فصل فی بیان انواع الشرکۃ،ج:6،ص:62،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."

(کتاب الاجارۃ ،الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الاجارۃ ومالا یجوز،ج:4،ص:445،دارالفکر)

مبسوط سرخسی میں ہے :

"بخلاف الزوائد فإنها تتولد من الملك فإنما تتولد بقدر الملك."

(کتاب القسمۃ،ج:15،ص:6،دارالمعرفۃ)

امدادالفتاوی میں ہے :

"پس حنفیہ کے قواعد  کی بناء پر یہ عقد ناجائز ہے کما نقل فی السوال عن العالمگیریۃ،لیکن بناء بر نقل بعض اصحاب   امام احمد  کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے،  پس تحرز احوط ہے  اور جہاں ابتلائے شدید ہو تو توسع کیا جاسکتا ہے ."

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:343،دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں