بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانوروں کے گھاس میں عشر اورصرف پاوڈر بناتے وقت اس میں ماربل ڈال کر آگے بیچنے کا حکم


سوال

1۔ ہم نے مال مویشی کے لیے زمین پندرہ من گندم  کے عوض سالانہ پر لی ہے ، اب اس زمین کی فصل گھاس پر عشر  ہوگا؟

2۔میرے بیٹے واشنگ پاوڈر صرف بنا کر بیچتے ہیں ، اور اس میں سٹون ماربل پاوڈر ڈالتے ہیں ، جس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دھلائی کے وقت ہاتھ نہیں جلاتے ، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر زیادہ ڈالا جائے تو کم خرچ  پر تیار ہوجاتا ہے اور غریب آسانی سے خرید سکتا ہے، تو کیا اس پاوڈر میں ماربل ڈال کر بنانا جائز ہے؟

جواب

1-حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جانوروں کے چارے کے لیے  جو پیداوار ہوگی اس پر بھی عشر ادا کرنا لازم ہوگا، خواہ وہ چارہ فروخت کیا جائے یا نہ کیا جائے۔

2-کسی چیز میں ملاوٹ کرنے کے بعد لوگوں کو ملاوٹ کے بارے میں واضح طور پر بتاکر اسے بیچنا شرعاً جائز ہے، (یعنی ہر خریدار کو علم ہو کہ اس میں ملاوٹ ہے)،   البتہ واضح طور پر بتائے بغیر بیچنا چوں کہ دھوکا  دہی پر مشتمل ہے، مثلاً سٹون ماربل ڈالنے کی وجہ سے پاوڈر کی کوالٹی بنسبت دوسرے پاوڈرکے کمزور ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے کپڑوں پر صاف ہونے کے بعد سفید بورا ہوتا ہے ، اسی طرح ماربل ڈالنے کی وجہ سے پاوڈر کا وزن بھی بڑھ جاتا ہے،   اس لیے واضح طور پر بتایے بغیر اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي ويجب في الكتان وبذره؛ لأن كل واحد منهما مقصود كذا في شرح المجمع. ويجب في الجوز واللوز والكمون والكزبرة هكذا في المضمرات."

(کتاب الزکاۃ، الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار، ج:1، ص:186، ط:رشیدیہ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال: «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال: أصابته السماء يا رسول الله قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس؟ من غش فليس مني»"

(کتاب البیوع، باب المنھی عنہا من البیوع، الفصل الاول، ج:2، ص:865، ط:المکتب الاسلامی بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں