بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور ذبح کرنے کا طریقہ


سوال

مفتیان کرام مجھے گائے، اونٹ کو ذبح کرنے کا سنت طریقہ معلوم کرنا ہے، میں نے کافی بار مفتیان کرام سے پوچھا وہ کہتے ہیں کہ قصائیوں سے طریقہ معلوم کریں، جبکہ مارکیٹ میں قصائی گائے بھینس کو ذبح کرنے کے فوری بعد گردن سے ہوتے ہوئے سیدھا دل پر چھڑی کھونپ دیتے ہیں جس کے بعد جانور فوری ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور مذبح خانوں میں ایسے ہی جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں، اس طریقہ کے بارے میں مفتیان کرام سے پوچھا تو انہوں نے اس طریقے کو غلط کہا اور قصائیوں کا یہی حال اونٹ کے بارے میں ہے، آپ گائے، بھینس اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ بتا دیں۔

جواب

۱) گائے کو ذبح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘  کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے،  ’’حلقوم‘‘ اور ’’مری‘‘  یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘  کہا جاتا ہے، کاٹ دی جائیں۔

۲) اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  اونٹ کو کھڑے رکھ کر اس کے سینہ کے بالائی حصہ کے قریب گردن کے نچھلے حصہ میں ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے چھری مار کر  مذکورہ رگوں کو کاٹا جائے۔

اس طرح ذبح یا نحر کرنے میں جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا  نجس خون بھی نکل جاتا ہے۔ سائل کے بیان کے مطابق جو یہ طریقہ رائج ہے کہ رگیں کاٹنے کے بعد دل میں چھری ماردیتے ہیں، یہ طریقہ شرعا مکروہ ہے کیونکہ اس سے جانور کو بلا وجہ اضافی تکلیف ہوتی ہے اور ایسا قصائی گنہگار ہے،  البتہ ایسا کرنے کی صورت میں جانور کا گوشت حرام نہیں ہوتا بلکہ حلال ہی رہتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وندب إحداد شفرته قبل الإضجاع، وكره بعده كالجر برجلها إلى المذبح وذبحها من قفاها) إن بقيت حية حتى تقطع العروق وإلا لم تحل لموتها بلا ذكاة (والنخع) بفتح فسكون: بلوغ السكين النخاع، وهو عرق أبيض في جوف عظم الرقبة.(و) كره كل تعذيب بلا فائدة مثل (قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد) أي تسكن عن الاضطراب وهو تفسير باللازم كما لا يخفى.

(قوله وكره إلخ) هذا هو الأصل الجامع في إفادة معنى الكراهة عناية (قوله أي تسكن عن الاضطراب) كذا فسره في الهداية (قوله وهو تفسير باللازم) لأنه يلزم من برودتها سكوتها بلا عكس (قوله لمخالفته السنة) أي المؤكدة لأنه توارثه الناس فيكره تركه بلا عذر أتقاني."

(کتاب الذبائح ج نمبر ۶ ص نمبر ۲۹۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحب) بالحاء (نحر الإبل) في سفل العنق (وكره) (ذبحها) ، (والحكم في غنم وبقر) (عكسه) فندب ذبحها (وكره نحرها لترك السنة) ومنعه مالك».

(قوله نحر الإبل) النحر: قطع العروق في أسفل العنق عند الصدر، والذبح: قطعها في أعلاه تحت اللحيين زيلعي واعلم أن النعام والإوز كالإبل، والضابط كل ما له عنق طويل أبو السعود عن شرح الكنز للأبياري. وفي المضمرات: السنة أن ينحر البعير قائما، وتذبح الشاة أو البقرة مضجعة قهستاني."

(کتاب الذبائح ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۰۳، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں