بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور ذبح کرنے کا طریقہ


سوال

جانور کو ذبح کرتے وقت جانور کی پشت قبلہ کی طرف ہو یا جانور کے کھر؟ براہ کرم تفصیل سے ذبح کرتے وقت کا  طریقہ سمجھادیں؟

جواب

جانور کو ذبح کرنے  کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ،  اللہ اکبر‘‘  کہتے ہوئے تیز دھارچھری یا  چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘ اور ’’مری‘‘  یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘  کہا جاتا ہے، کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا  نجس خون بھی نکل جاتا ہے۔

جانور کو قبلہ رخ لٹانے میں بہتر یہ ہے کہ جانور کی بائیں کروٹ پر اسے لٹایا جائے، (یعنی ہمارے ملک میں جانور کا سر جنوب کی طرف اور دُم شمال کی جانب ہو)؛ تاکہ دائیں ہاتھ سے جانور کو ذبح کرنے میں سہولت ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جانور کو قبلہ رُخ کرنے کی صورت میں اس کی پشت قبلے کی جانب نہیں ہوگی، بلکہ پاؤں قبلے کی جانب ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما الإختيارية فركنها الذبح فيما يذبح من الشاة والبقر، والنحر فيما ينحر وهو الإبل عند القدرة على الذبح والنحر، ولا يحل بدون الذبح أوالنحر، والذبح هو فري الأوداج ومحله ما بين اللبة واللحيين، والنحر فري الأوداج ومحله آخر الحلق، ولو نحر ما يذبح أو ذبح ما ينحر يحل لوجود فري الأوداج لكنه يكره لأن السنة في الإبل النحر وفي غيرها الذبح، كذا في البدائع۔۔۔۔۔والعروق التي تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء وهو مجرى الطعام، والودجان وهما عرقان في جانبي الرقبة يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى ، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة  رحمه الله تعالى : لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات."

(کتاب الذبائح ،الباب الاول فی رکن الذبح،ج:۵،ص:۲۸۵،۲۸۷،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144312100002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں