بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور وغيره كا قيامت ميں حشر (دوباره زنده كيا جانا)


سوال

کیا جانوروں کو ذبح کرنے یا اُن کی قدرتی موت ہونے کے بعد وہ بھی انسانوں کی طرح دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟

 اور اُن کی روح بھی انسانوں کی روح کی طرح خواب میں ملتی ہيں؟

جواب

جانوروں کا قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جانا (یعنی حشر)  مختلف نصوص میں وارد ہوا ہے۔  تاہم یہ حشر حساب کتاب اور جہنم و جنت کے فیصلے کے لیے نہیں ہوگا  (جیسا کہ مکلف یعنی جنات و انسان کا حشر ہوگا) بلکہ اس کی دیگر حکمتیں ہیں جن میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ مکلف لوگوں پر یہ واضح کیا جائے کہ یہ ایسا دن ہے جس میں جانوروں کے معاملے میں بھی انصاف سے کام لیا جارہا ہے تو مکلف کے حساب کتاب میں کیسے نا انصافی کی جاسکتی ہے۔

 قرآن میں ہے :

"وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ   "

(سورة الأنعام، آية 38)

ترجمہ: اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمھاری ہی طرح کے گروہ نہ ہوں،  ہم نے دفتر (لوح محفوظ) میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (سب کو لکھ لیا ہے)،  پھر سب  اپنے پروردگار کے پاس جمع کیے جاویں گے ۔ (از بیان القرآن)

"وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ  "

(التكوير، آية 5)

ترجمہ:  اور جب وحشی جانور (مارے گھبراہٹ کے) سب جمع ہو جاویں گے۔ (از بیان القرآن)

حدیث میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لتؤدن الحقوق إلى أهلها يوم القيامة، حتى يقاد للشاة الجلحاء، من الشاة القرناء»"

(صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم، ج4، ص1997، دار إحياء التراث)

ترجمہ:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن تم لوگوں سے حقداروں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لے لیا جائے گا۔

مرقات شرح مشکات میں ہے:

"قال النووي: الجلحاء بالمد هي الجماء التي لا قرن لها، والقرناء ضدها، وهذا تصريح بحشر البهائم يوم القيامة وإعادتها كما يعاد أهل التكليف من الآدميين والأطالل والمجانين، ومن لم تبلغه دعوة، وعلى هذا تظاهرت دلائل القرآن والسنة. قال تعالى جل جلاله ولا إله غيره: {وإذا الوحوش حشرت} [التكوير: 5] وإذا ورد لفظ الشرع ولم يمنع من إجرائه على ظاهره شرع ولا عقل وجب حمله عن ظاهره قالوا: وليس من شرط الحشر والإعادة في القيامة المجازاة والعقاب والثواب، وأما القصاص من القرناء للجلحاء، فليس من قصاص التكليف، بل هو قصاص مقابلة اهـ. وفي كونه قصاص مقابلة نظر لا يخفى، مع أن قصاص المقابلة نحن مكلفون به أيضا.

قال ابن الملك أي: لو نطح شاة قرناء شاة جلحاء في الدنيا، فإذا كان يوم القيامة يؤخذ القرن من القرناء ويعطى الجلحاء حتى تقتص لنفسها من الشاة القرناء، فإن قيل: الشاة غير مكلفة، فكيف يقتص منها؟ قلنا: إن الله تعالى فعال لما يريد ولا يسأل عما يفعل، والغرض منه إعلام العباد بأن الحقوق لا تضيع، بل يقتص حق المظلوم من المظالم اهـ. وهو وجه حسن وتوجيه مستحسن إلا أن التعبير عن الحكمة بالغرض وقع في غير موضعه، وجملة الأمر أن القضية دالة بطريق المبالغة على كمال العدالة بين كافة المكلفين، فإنه إذا كان هذا حال الحيوانات الخارجة عن التكليف، فكيف بذوي العقول من الوضيع والشريف والقوي والضعيف؟ (رواه مسلم) : وفي الجامع بزيادة تنطحها. رواه أحمد ومسلم والبخاري في الأدب والترمذي."

(كتاب الآداب، باب الظلم، ج8، ص3203، دار الفكر)

باقي جانوروں كا خواب ديكھنا اور خواب ميں ان كي روحوں كا ملنا، اس كے متعلق هميں معلوم نهيں، اور نه هي اس پر همارا كوئی  ديني كام موقوف هے۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601100369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں