بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور میں چھ حصے کی قربانی کا حکم


سوال

کیا چھ 6 حصے قربانی جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی بڑے جانور میں شرکاء کی تعداد چھ ہونے کا سوال ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ بڑے جانور مثلا اونٹ،گائے اور بھینس وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہوسکتے ہیں،سات سے زیادہ افراد کی شرکت جائز نہیں ہے،البتہ اگر سات افراد سے کم شریک ہیں تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ کسی شریک کا حصہ بھی کل جانور کی قیمت کے ساتویں حصے سے کم نہ ہو،اس سے زیادہ ہو تو کوئی حرج نہیں،مثلا اگر گائے کی قیمت ساٹھ ہزار ہے اور ہر چھ شرکاء میں سے ہر شریک دس دس ہزار روپے ملائے تو یہ صورت درست ہے،اور  شرکاء اگر حصوں کی تقسیم چاہتے ہوں تو اس  کے گوشت کو بھی چھ برابر حصوں میں تقسیم کرکے ہر شریک کو برابر ملے گا۔

لیکن  اگر کوئی ایک شریک کہتا ہے کہ میں صرف پانچ ہزار یا چھ ہزار ملاؤں گا باقی دوسرے شرکاء ملائیں تو  چوں کہ یہ پانچ یا چھ ہزار روپے  مذکورہ گائے کی کل قیمت  (60 ہزار) کے ساتویں حصے (8571 روپے) سے کم ہیں؛  لہذا یہ شرکت درست نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و لايجوز بعير واحد و لا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، و يجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء." (70/5)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں