بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کے بچوں کو اس سے دور کرنے کا حکم


سوال

میرے گھر کے دروازے پر بلی کے دو بچے تھے، گندگی پھیلانے کی وجہ سے میں نے ان کو شاپر بیگ میں ڈال کر بلڈنگ سے دور لے جا کر رکھ دیا، جس کی وجہ سے بلی بہت شور مچا رہی ہے، کل رات سے مجھے بہت ٹینشن ہے ، کیا میرا یہ طریقہ اختیار کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بلاضرورت کسی جانور کو تکلیف پہنچانا یا اس کے بچوں کو اس سے جدا کرنا درست نہیں ،تاہم اگر کسی ضرورت کی وجہ سے جانور کو اس کے بچوں سے جدا کیا جائے ،تو شرعا ً اس کی اجازت ہے ،صورت مسئولہ میں گندگی پھیلانے کی وجہ سے بلی کے بچوں کو کہیں دور چھوڑکر آنے میں کوئی قباحت نہیں ،لیکن بہتر یہ ہے کہ بلی کو بھی اس کے بچوں کے ساتھ ہی دور چھوڑدیاجائے ،تاکہ بلاضرورت جانور کو تکلیف پہنچانا لازم نہ آئے۔

سنن ابی داود میں ہے :

"عن عبد الرحمن بن عبد الله  عن أبيه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فانطلق لحاجته، فرأينا حمرة معها فرخان، فأخذنا فرخيها، فجاءت الحمرة فجعلت تفرش، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "من فجع هذه بولدها؟ ردوا ولدها إليها."

(کتاب الجہاد،باب في كراهية حرق العدو بالنار،ج:4،ص:309،رقم:2675،ط:دار الرسالة العالمية)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"فجاء النبي صلى الله عليه وسلم أي فرجع فرأى تفرشها (فقال: من فجع) بتشديد الجيم أي فزع (هذه) أي الحمرة (بولدها) أي بسبب أخذ أولادها (ردوا ولدها إليها) ‌الأمر للندب ; لأن اصطياد فرخ الطائر جائز.''

(کتاب الدیات،باب قتل أهل الردة والسعاية بالفساد،ج:6،ص:314،رقم:3542،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی ہے:

"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحا) ولا يضر بها لأنه لا يفيد، ولا يحرقها وفي المبتغى يكره إحراق جراد وقمل وعقرب.(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله: ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله: يكره إحراق جراد) أي تحريمًا ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية."

(مسائل شتی، ج:6،ص:752، ط: سعید)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"و أما غير المأكول فنوعان: نوع يكون مؤذيا طبعا مبتدئا بالأذى غالبا، و نوع لايبتدئ بالأذى غالبا، أما الذي يبتدئ بالأذى غالبا فللمحرم أن يقتله و لا شيء عليه، و ذلك نحو: الأسد، و الذئب، و النمر، و الفهد؛ لأن دفع الأذى من غير سبب موجب للأذى واجب فضلا عن الإباحة، و لهذا أباح رسول الله صلى الله عليه و سلم قتل الخمس الفواسق للمحرم في الحل و الحرم بقوله صلى الله عليه وسلم: «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل و الحرم: الحية، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور، و الغراب و روي و الحدأة» و روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «خمس يقتلهن المحل و المحرم في الحل و الحرم: الحدأة، و الغراب، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور» . وروي عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل و الحرم: الحدأة، و الفأرة، و الغراب، و العقرب، و الكلب العقور» و علة الإباحة فيها هي الابتداء بالأذى و العدو على الناس غالبا... الفأرة تسرق أموال الناس."

(كتاب الحج، فصل بيان أنواع الصيد،ج:2،ص:197، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503100841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں