بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کو تکلیف سے بچانے کی غرض سے بے ہوش کر کے ذبح کرنے کا حکم، بے ہوش کر کے ذبح کیے جانے والے جانور کے گوشت کا حکم


سوال

 جرمنی میں یا یورپ کے کچھ ممالک میں جانور حلال (ذبح) کرنے پر کہا جاتا ہے کہ جانور کو تکلیف ہوتی ہے،اس پر وہاں قانون ہے کہ اب جانور کو اِسْٹَن (ایک عمل جس میں جانور کو الیکٹرک شاک دے کر یا کاربن ڈائی آکسائڈ کے ذریعے نیم بے حس و حرکت اور بے ہوش سا کردیتے ہیں) کرکے پھر ذبح کیا جاتا ہے،ذبح سے پہلے ایک ڈاکٹر یہ چیک کرتا ہے کہ جانور زندہ ہے یا مردہ،پھر اس جانور کو ذبح ترکی کے مسلمان قصائی کرتے ہیں،کیا ایسا گوشت کھانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی دوسرے طریقے کے مقابلے میں سب سے کم تکلیف جانور کو ذبح کرنے کی صورت میں ہوتی ہے، اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے جانور کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے، جب کہ الیکٹرک شاک یا کاربن ڈائی آکسائڈ وغیرہ کے ذریعے جانور کو بے ہوش کر کے ذبح کرنے میں جانور کو اضافی تکلیف پہنچتی ہے، لہٰذا چوں کہ جانور کو بے ہوش کرکے ذبح کرنا ایک تو سنت  اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، دوسرا اس میں جانور کے ذبح سے پہلے مر کر حرام ہونے کا اندیشہ رہتا ہے،اس لیے جانور کو بے ہوش کر کے ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔نیز بعض لوگ جانور کو بے ہوش کرنے کے لیے کوئی نشہ آور چیز کھلاتے پلاتے ہیں تو جانور کو نشہ آور چیز کھلانے پلانا خود ایک ناجائز فعل ہے۔ اس لیے جانور کو ذبح سے پہلے بے ہوش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ باقی گوشت کے حلال یا حرام ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ ذبح سے پہلے جانور زندہ تھا یا نہیں؟ اگر الیکٹرک شاک وغیرہ کی وجہ سے جانور ذبح کیے جانے سےپہلے ہی مرچکا ہو تو ایسی صورت میں وہ جانور مردار کہلائے گا اور اس کا گوشت کھانا حرام ہوگا، لیکن اگر اس بات کا یقین ہو کہ ذبح سے پہلے جانور زندہ تھا تو ایسی صورت میں مسلمان قصائی کے بسم اللہ پڑھ کر شرعی طریقے سے ذبح کرنے کی وجہ سے وہ جانور حلال شمار ہوگا اور اس کا گوشت کھانا جائز ہوگا۔

امداد الاحکام میں ہے:

"السوال:

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کہ غیر قوموں کو مسلمانوں پر ایک بڑا اعتراض گاؤ کُشی، نیز دیگر حلال جانوروں کے متعلق ہے کہ اس کے ذبح میں بلاوجہ ایک جاندار کی ایذا اور تکلیف ہوتی ہے، جو انسانی اخلاق کے خلاف ہے تو کیا اگر اس کے دفعیہ کے لیے اگر کوئی صورت نکالیں اور جانوروں کو کسی دوا وغیرہ سے بے ہوش کرکے ذبح کریں تو آیا جانور کو کسی بے ہوشی لانے والی دوا سے بے ہوش کرنا اور بے ہوشی کی حالت میں ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے یا نہیں؟ مدلّل جواب باصواب تحریر کریں۔ فقط والسلام   احقر ابراہیم ابن یوسف سوجھ بکس ۱۷۳       رنگون .

الجواب

غیرقوموں کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔ تجربہ اور اقوالِ اطبّاء اس پر شاہد ہیں کہ ذبح میں جانور کو بنسبت جان کی بدون ذبح کے بہت کم تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ غیر قوم ذرا ذرا سی بات پر انسان کو قتل سے تو روکتے نہیں اور جانور پر اتنا رحم! یہ کون سا قاعدہ ہے۔ پس مخالفین کے اعتراض سے متاثر ہونا اور اس سے متاثر ہوکر جانور کو ذبح سے پہلے بے ہوش کرنا جائز نہیں۔ یہ جواب تو اس صورت میں ہے جب کہ جانور کو دوا سونگھا کر بے ہوش کیا جائے اور اگر کھانے پینے کی دوا دے کر بے ہوش کیا جاوے تو اس میں دو گناہ ہیں: ایک تأثر من اعتراض المخالفین کا گناہ، دوسرے جانور کو مسکر و مضر کے کھلانے پلانے کا گناہ۔ 

قال في الدر: "و حرم الانتفاع بھا ولو سقی بھا دوابّ إلی أن قال: ویحرم أکل النبج والحشیشة  والأفیون۔ اھ أي القدر المسکر منها."(ج؍۵،ص؍۴۵۳)

اور اگر بے ہوش کرکے کسی نے ذبح کردیا تو ذبیحہ حلال ہوگا، جب کہ شرائطِ ذبح بتمامہا موجود ہوں، مگر کراہت سے خالی نہيں اور اس کا گوشت کھانا جائز ہوگا۔ لیکن ایسے بے ہوش کردہ گائے یا بکری وغیرہ ذبح کرنے سے قربانی کے ادا اور صحیح ہونے میں تامل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ ۔ حرّرہ الاحقر ظفراحمد عفا اللہ عنہ     از تھانہ بھون ، خانقاہ امدادیہ"

(امداد الاحكام 4/ 229)

بدائع الصنائع ميں هے:

"(وأما) شرائط ركن الذكاة فأنواع.........(ومنها) أن يكون مسلما."

(كتاب الذبائح والصيود، فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول، 5/ 45 ط: دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"‌ثم ‌التسمية ‌في ‌ذكاة الاختيار يشترط أن تكون عند الذبح قاصدا التسمية على الذبيحة."

(كتاب الذبائح ، ما يقوله عند الذبح، 8/ 192 ط: داراالكتاب الاسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌والعروق ‌التي ‌تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء وهو مجرى الطعام، والودجان وهما عرقان في جانبي الرقبة يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات."

(كتاب الذبائح ، الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه وحكمه وأنواعه، 5/ 287 ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں