بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کو تکلیف دینے کا حکم


سوال

مُجھ سے بہت بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں : واقعہ یہ ہے کہ مُجھے ایک بلّی کا بچہ ملا، میں نے اُسے پالنا شروع کیا؛ لیکِن میں نے کئی دفع اُس پر جان بوجھ کے ظُلم کیا، اور اُسے تکلیف اور اذیت دی، حالانکہ میں عاقل اور بالغ ہوں۔ 23 سال عمر ہے، اِس دفع تو اتنا شدید ظُلم کیا کہ بلّی کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی، ایسا لگا جیسے وُہ مر جائے گی؛لیکِن وُہ زندہ ہے، پتہ نہیں میں کتنا وحشی بن گیا تھا۔ اب بہت ہی شرمسار اور نادم ہوں، بہت ڈر بھی لگ رہا ہے کہ کہیں خُدا نخواستہ اللہ مُجھ پر عذاب مسلط نہ کرلے یا کوئی نعمت مُجھ سے چھین نہ لے اور ایسا بھی سنا ہے کہ بے زبان کی بددعا لگتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے ؟ اب میں کیا کروں ؟ اِس غلطی کو ٹھیک کیسے کروں۔ کہ اللہ تعالی مُجھ پر کوئی عذاب نہ لائے یا کوئی نعمت مُجھ سے چھین نہ لے۔ بلّی اب بھی میرے پاس ہی ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ کسی جانور کو تکلیف دینا یا اس پر ظلم کرنا سخت ترین گناہ ہے ،احادیث مبارکہ میں ایسے آدمی کے بارے میں جو جانورکو بلاوجہ تکلیف دیتا ہویا اس پر ظلم کرتا ہو سخت قسم کی وعیدیں آئی ہیں ،حضرت ابن عمر   اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔ایک اور روایت میں ہے  کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کا بلی پر بے جا ظلم کرنا اور  اسے تکلیف دینا شرعاً جائز نہیں تھا ،اس کی وجہ   سے سائل شرعاً گناہ گار ہوا ،اس غلطی کو درست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سائل اللہ کے حضور صدق دل سے معافی مانگ لے اور اس فعل پر توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لیے اس بلی کا خیال رکھیں ۔

حدیث میں ہے :

"وعن ابن عمر وأبي هريرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌عذبت ‌امرأة في هرة أمسكتها حتى ماتت من الجوع فلم تكن تطعمها ولا ترسلها فتأكل من خشاش الأرض»."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکات،باب فضل الصدقۃ،ج:1،ص؛595،المکتب الاسلامی)

وفيه أيضاّ:

"عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما:أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الكسوف، فقال:دنت مني النار، حتى قلت: أي رب وأنا معهم، فإذا امرأة - حسبت أنه قال - ‌تخدشها ‌هرة، قال: ما شأن هذه؟ قالوا: حبستها حتى ماتت جوعا".

(صحیح بخاری،کتاب المساقاۃ،باب فضل سقی الماء،ج:2،ص:833،دارابن کثیر)

شرح النووی میں ہے :

"وفي الحديث دليل لتحريم قتل الهرة وتحريم حبسها بغير طعام أو شراب وأما دخولها النار بسببها فظاهر الحديث أنها كانت مسلمة وإنما دخلت النار بسبب الهرة وذكر القاضي أنه يجوز أنها كافرة عذبت بكفرها وزيد في عذابها بسبب الهرة واستحقت ذلك لكونها ليست مؤمنة تغفر صغائرها باجتناب الكبائر هذا كلام القاضي والصواب ماقدمناه أنها كانت مسلمة وأنها دخلت النار بسببهاكما هو ظاهر الحديث وهذه المعصية ليست صغيرة بل صارت بإصرارها كبيرة".

(باب تحریم قتل الھرۃ،ج:14،ص:240،داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں