بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کوخصی کرنے اور اس کی قربانی کرنے کا حکم


سوال

کیا بکرے کو خصی کرانا جائز ہے؟ اور میں نے یہ بھی سنا تھا کہ خصی والے جانور کی قربانی افضل ہے بنسبت غیر خصی والے جانور کے، اس حوالے سے بھی راہ نمائی فرمائیے!

جواب

بصورتِ مسئولہ جانور کو موٹا، تازہ، اور فربہ بنانے یاکسی منفعت  کی غرض سے خصی کرنا درست ہے، البتہ اگر کوئی منفعت نہیں ہے یا محض لہولعب کی غرض سے جانور کو خصی کرناہو تو از روئے شرع ایسےمقاصد کے لیے جانور کو خصی کرنا جائز نہیں ہے۔

اور خصی کیے ہوئے جانور کی قربانی کرنا جائز بھی ہے، اور غیر خصی جانور کی بنسبت افضل بھی ہے، رسول اللہ ﷺ نے خود بھی خصی جانور کی قربانی کی ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن سینگوں والے سیاہ وسفید دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کیے۔ (سنن أبي داود، باب ما یستحب من الضحایا 2/30، ط: حقانیه ملتان)

نیزخصی جانور کی قربانی اس وقت افضل ہے کہ وہ جانور پہلے سے فربہ بنانے کے لیے خصی کیاگیاہو، محض افضلیت حاصل کرنے کے لیے قربانی کے موقع پر جانور کو خصی نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ خصی جانور کی قربانی افضل و بہتر اس لیے ہے کہ وہ فربہ اور اس کا گوشت عمدہ ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں اس وقت حاصل ہوسکتی ہیں جب کہ جانور کو پہلے سے ہی خصی کردیا جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

(و) جاز (خصاء البهائم) ... وقيدوه بالمنفعة وإلا فحرام.

(قوله وقيدوه) أي جواز خصاء البهائم بالمنفعة وهي إرادة سمنها أو منعها عن العض بخلاف بني آدم فإنه يراد به المعاصي فيحرم أفاده الأتقاني عن الطحاوي.

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:388، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

والخصي أفضل من الفحل؛ لأنه أطيب لحمًا، كذا في المحيط.

(الباب الخامس فى بيان محل اقامة الواجب، ج:5، ص:299، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144202200380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں