بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کو داغ کر علامت لگانے کا حکم


سوال

کیا جانور کو داغ کر کوئی علامت لگانا کسی عذر شدید کی وجہ سے جائز ہے؟

جواب

جانور کے  چہرے کو داغنا تو بالکل جائز نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے جانور کے چہرے پر مارنے سے بھی منع فرمایا ہے اور جانور کے چہرے پر نشان لگانے سے بھی منع فرمایا ہے، اور ایک دوسری روایت میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نے ایک گدھے کو دیکھا جس کے چہرے پر  داغ کر علامت لگائی گئی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے اس کے چہرے کو داغ کر علامت لگائی ہے، اس  لیے چہرے کو داغنے کی تو بالکل اجازت نہیں ہے، البتہ ضرورت کے وقت چہرے کے علاوہ کسی دوسری جگہ کو علامت لگانے کے  لیے داغنے کی گنجائش ہے،  بھیڑ، بکری کے کان کو داغ کر علامت  لگانا بہتر ہے، اور  گائے، اونٹ وغیرہ کی  رانوں کو داغ کر علامت لگانی  چاہیے، البتہ داغتے وقت بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ حتی الامکان کم سے کم داغا جائے؛ تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔

مشكاة المصابيح (2/ 1193):

’’وعن جابر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الضرب في الوجه وعن الوسم في الوجه. رواه مسلم.‘‘

مشكاة المصابيح (2/ 1193):

’’وعنه أن النبي صلى الله عليه وسلم مر عليه حمار وقد وسم في وجهه قال: «لعن الله الذي وسمه» . رواه مسلم.‘‘

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6/ 2650):

’’ (وعنه) أي: عن جابر رضي الله عنه (أن النبي صلى الله عليه وسلم مر عليه حمار) أي: مر به (وقد وسم في وجهه) أي: وسما فاحشا والجملة حالية (قال: لعن الله الذي وسمه) أي: كواه هذا الكي، فإن قيل: كيف لعن الواسم وقد نهي عن لعن المسلم؟ قيل: يحتمل أن الواسم لم يكن مسلما، أو كان من أهل النفاق، ولم يصرح به ليكون أدعى إلى الانزجار عما زجر عنه، ويحتمل أن لا يكون دعاء بل إخبار عن الغيب، واستحق ذلك ; لأنه علم بالنهي فأقدم عليه مستهينا به مع كونه منزوع الرحمة، وقد صح: «الراحمون يرحمهم الرحمن» . وقال الطيبي: يحتمل أن يكون الواسم كافرا وأن يكون للتغليظ، كما في قوله صلى الله عليه وسلم: ( «لعن الله من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا» ) قال النووي: الوسم في الوجه منهي عنه بالإجماع، فأما وسم الآدمي فحرام لكرامته؛ ولأنه لا حاجة إليه فلا يجوز تعذيبه، وأما غيره فقال جماعة من أصحابنا: يكره. وقال البغوي: لا يجوز فأشار إلى تحريمه، وهو الظاهر لهذا الحديث إذ اللعن يقتضي التحريم، وأما غير الوجه فمستحب في نعم الزكاة والجزية وجائز في غيرها، وإذا وسم فمستحب أن يسم الغنم في آذانها والإبل والبقر في أصول أفخاذها، وفائدة الوسم التمييز. (رواه مسلم) ‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 752):

’’( و) يجوز (فصد البهائم وكيها وكل علاج فيه منفعة لها).‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں