بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بکرے کو جفتی کے لیے فارم میں پالنا اور اس کی جفتی پر اجرت لینا ، پرندوں کا پالنا اور کاروبار کرنا


سوال

1:مؤدبانہ گزارش ہے کہ میرےپاس چندبکرے اوردنبے ہیں  اعلی ٰ نسل کے تولوگ ہمارے پاس اپنے مادہ جانورلے کرآتےہیں کراس کروانے کےلیے ( حاملہ کروانے کےلیے ) توہم ان پر ان سے اجرت لے سکتےہیں یانہیں ؟اگران پرہم اجرت لیں توآیااس کوہم استعمال کرسکتےہیں اپنی ذات کے لیے، یاجانوروں کی خوراک کےلیے۔ مذکورہ دوصوروں میں سے کونسی جائزہے اورکونسی ناجائزہے کہ دونوں جائزیادونوں حرام ہیں رہنمائی فرمائیں ۔

نوٹ : مذکورہ جانوروں کوایک وقت کاچارہ خریدکرکھلایاجاتاہے، باقی وقت وہ باہرچرتےہیں ۔

2:دوسرامسئلہ یہ ہے کہ فینسی پرندے مثلاًطوطے وغیرہ جوکہ عموماً قیدکرکے پنجروں میں پالے جاتے ہیں اگران کوآزادفضامیں چھوڑدیاجائے تووہ نہ توزیادہ اڑسکتےہیں اورنہ ہی دوسرے بڑے پرندوں وغیرہ سے اپنادفاع کرسکتےہیں ، ان کوپالنااوران کاکاروبارکرنااوراس سے منافع کماناحلال ہے یاحرام ؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

 1:واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے بکرے، دنبے  اپنے فارم میں نسل بڑھانے اور جفتی کروانے کی غرض اور مقصد کے لیے پالنا جائز ہے،  لیکن اس بکرے اوردنبے کو جفتی کرنے اور نسل بڑھانے کے لیے کرایہ پر دینا یا دوسروں کی بکریوں سے جفتی کی اجرت لینا دینا دونوں ناجائز ہیں، حدیثِ مبارک  میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔ البتہ اجرت طے کیے بغیر بکریوں  کا مالک ہدیہ کے طور پر یا جانور کے چارہ وغیرہ کے لیے کچھ دے، یا اس جانور کو کچھ کھلائے پلائے تو یہ جائز ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن ‌نافع ، عن ‌ابن عمر قال: «نهى النبي صلى الله عليه وسلم ‌عن ‌عسب» ‌الفحل."

(سنن الترمذي ، باب ما جاء في كراهية عسب الفحل 2/ 551 ط: دارالغرب الاسلامی )

وفیه ايضا:

"عن ‌أنس بن مالك ؛ «أن رجلًا من كلاب» سأل النبي صلى الله عليه وسلم ‌عن ‌عسب ‌الفحل فنهاه، فقال: يا رسول الله، إنا نطرق الفحل فنكرم! فرخص له في الكرامة."

(سنن الترمذي ، باب ما جاء في كراهية عسب الفحل 2/ 552 ط: دارالغرب الاسلامی )

2:واضح رہےکہ پرندوں کی خریدوفروخت  فی نفسہ جائز ہے اور پرندوں کاپالنااگرعبادات اوردینی امورمیں غفلت اور سستی کاسبب نہ ہو،تو ان کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے پالنے میں کوئی حرج نہیں ، چنانچہ اگرپرندوں کوگھروں میں اس طرح پالاجائے کہ ان کوتکلیف اورایذاپہنچنے کااندیشہ نہ ہو،نیز خوراک وغیرہ کابھی معقول انتظام کیاجاتاہوتوشرعاپرندوں کاپالنا،ان سے کاروبارکرکے  منافع کمانا حلال اورجائز ہے.

فتاوی شامی میں ہے :

"ويجوز بيع البازي والشاهين والصقر وأمثالها والهرة ويضمن متلفها لا بيع الحدأة و الرخمة و أمثالهما و يجوز بيع ريشها ...بيع الكلبالمعلم عندنا جائز، و كذا السنور و سباع الوحش و الطير جائز معلمًا أو غير معلم."

(ردالمحتار علی الدر المختار ، باب بیع الفاسد ، مطلب في بيع دودة القرمز 5/ 68 ط: سعيد)

       فتاوی قاضی خان میں ہے :

"وكذلك بيع السنور و سباع الوحش و الطير جائز عندنا معلما كان أو لم يكن·"

( فتاوى قاضي خان على هامش الهندية، كتاب البيوع، ۲/ ۱۳۳ ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں