بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کےٍ عیب دار ہونے کی صورت میں غرباء اور اغنیاء شرکاء ہونے کی صورت میں جانور اور اغنیاء کی قربانی کا حکم


سوال

سات آدمیوں نے قربانی کے لیے ایک گائے خریدی، تین فقیر اور چار اغنیاء ہیں،اب قربانی کے جانور   میں ذبح کرنے سے پہلے ایسا عیب نکل آیا جو قربانی کرنے سے مانع ہو( مثلا گائے کے تھنوں میں سے تین تھن خراب ہوں یا ایسا کمزور ہو جو مذبح تک نہ چل سکتاہو) اب ایسے قربانی کے جانور کو کیا جائے ؟

نیز اغنیاء کے حصص کو کیا کیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ فقیر کا قربانی  کے دنوں میں قربانی کی نیت سے جانور خریدنا نذر کی مانند ہے، اور نذر کا حکم یہ ہے کہ نذر کرنے سے اسے پورا کرنالازم ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے جانورخریدنے کے بعد فقیر پر اس متعین جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ البته اگر کسی وجہ سے اس جانور کی قربانی متعذر ہوجائے تو اس کا بدل واجب ہو جائے گا ، جیسا کہ اگر نذر مانی ہوئی چیز کا ادا کرنا ممکن نہ ہو تو اس کا بدل لازم ہو جاتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اغنیاء (صاحب نصاب) کے لیے عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، ان پر لازم ہے کہ کسی دوسرے جانور کی قربانی کریں، اسی طرح تینوں فقراء کے لیے بھی چوں کہ مذکورہ جانور کی قربانی متعذر ہے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ جانور میں سے اپنا حصہ فروخت کر کے بطور بدل کسی دوسرے جانور میں شریک ہوجائیں یا متوسط درجہ کا چھوٹا جانور خرید کی اس کی قربانی کریں۔

 بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشتري للأضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها، وقال الشافعي - رحمه الله -: لا تجب وهو قول الزعفراني من أصحابنا وإن كان غنيا لا يجب عليه بالشراء شيء بالاتفاق (وجه) قول الشافعي - رحمه الله - إن الإيجاب من العبد يستدعي لفظا يدل على الوجوب، والشراء بنية الأضحية لا يدل على الوجوب فلا يكون إيجابا ولهذا لم يكن إيجابا من الغني.

(ولنا) أن الشراء للأضحية ممن لا أضحية عليه يجري مجرى الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفا؛ لأنه إذا اشترى للأضحية مع فقره فالظاهر أنه يضحي فيصير كأنه قال: جعلت هذه الشاة أضحية، بخلاف الغني؛ لأن الأضحية واجبة عليه بإيجاب الشرع ابتداء فلا يكون شراؤه للأضحية إيجابا بل يكون قصدا إلى تفريغ ما في ذمته ."

(كتاب،التضحية،صفة التضحية، ج: 5، ص :62، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضا:

"ثم الوفاء بالمنذور به نفسه حقيقة، إنما يجب عند الإمكان، فأما عند التعذر فإنما يجب الوفاء به تقديرا بخلفه؛ لأن الخلف يقوم مقام الأصل، كأنه هو، كالتراب حال عدم الماء، والأشهر حال عدم الإقراء، حتى لو نذر الشيخ الفاني بالصوم، يصح نذره، وتلزمه الفدية؛ لأنه عاجز عن الوفاء بالصوم حقيقة فيلزمه الوفاء به تقديرا بخلفه، ويصير كأنه صام، وعلى هذا يخرج أيضا النذر بذبح الولد، أنه يصح عند أبي حنيفة - عليه الرحمة - ومحمد - رحمه الله - ويجب ذبح الشاة؛ لأنه إن عجز عن تحقيق القربة بذبح الولد حقيقة لم يعجز عن تحقيقها بذبحه تقديرا بذبح خلفه وهو الشاة، كما في الشيخ الفاني إذا نذر بالصوم."

(كتاب النذر، فصل في حكم النذر، ج 5: ص: 91، دار الكتب العلمية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں