بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنت کے درجات اور دروازوں کے نام


سوال

جنت کے مقامات (درجات) اور ان کے دروازوں کے نام کیا ہیں؟

جواب

جنت کے درجات لوگوں کے اعمال کے لحاظ  سے مختلف  ہوں گے، بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جنت کے سو درجات ہیں، اور سب سے اعلیٰ درجہ جنت الفردوس کا ہے، اور احادیث میں اللہ تعالیٰ سے جنت الفردوس کے سوال کرنے کا حکم دیاگیاہے، نیز بعض روایات میں جنت کے درجات کی تعداد قرآنِ مجید کی آیات کی تعداد کے برابر  مذکور  ہے۔
سنن الترمذي(4 / 675):

"عن معاذ بن جبل : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: من صام رمضان وصلى الصلوات وحجّ البيت -لا أدري أ ذكر الزكاة أم لا- إلا كان حقًّا على الله أن يغفر له إن هاجر في سبيل الله أو مكث بأرضه التي ولد بها، قال معاذ: ألا أخبر بهذا الناس؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ذر الناس يعملون؛ فإنّ الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، و الفردوس أعلى الجنة وأوسطها، و فوق ذلك عرش الرحمن، و منها تفجر أنهار الجنة؛ فإذا سألتم الله فسلوه الفردوس."

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، حج کیا، (راوی کہتے ہیں  مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکاة کا ذکر کیا یا نہیں) تو اس کا اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اس کی مغفرت کرے خواہ وہ ہجرت کرے یا جہاں پیدا ہوا ہو وہیں رہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا میں لوگوں کو یہ خوش خبری نہ سنادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو عمل کرنے کے لیے چھوڑ دو؛ کیوں کہ جنت میں سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان اور جنت الفردوس جنتوں میں سب سے اعلی اور درمیان میں ہے، اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے، جنت کی نہریں بھی اسی سے نکلتی ہیں؛  لہذا اگر تم اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس مانگا کرو۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

"وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: " في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض والفردوس أعلاها درجةً، منها تفجر أنهار الجنة الأربعة ومن فوقها يكون العرش، فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس" رواه الترمذي ولم أجده في الصحيحين ولا في كتاب الحميدي".

ترجمہ: اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جنت میں سو درجے ہیں ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ زمین وآسمان کے درمیان ہے اور فردوس (صورۃً اور معنًی) اپنے درجات (کی بلندی) کے اعتبار سے سب جنتوں سے اعلی وبرتر ہے اور اسی فردوس سے بہشت کی چاروں نہریں نکلتی ہیں اور فردوس ہی کے اوپر عرشِ الہٰی ہے، پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو (جو سب سے اعلی وبرتر ہے)"۔

اس روایت کی تشریح میں شارحِ مشکات علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی لکھتے ہیں:

 "سو درجے" میں سو کا عدد تعین وتحدید کے لیے نہیں، بلکہ "کثرت" کے اظہار کے لیے بھی ہوسکتا ہے، اس کی تائید حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس مرفوع روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو بیہقی نے نقل کیا ہے اور جس میں جنت کے درجات کی تعداد قرآن کی آیتوں کے برابر بیان کی گئی ہے، روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

"عدد درج الجنة عدد آي القران فمن دخل الجنة من أهل القرآن؛ فلیس فوقه درجة."

اور یہ بھی ممکن ہے کہ " سو " سے یہ خاص عدد ہی مراد ہو اور اس کے ذریعہ جنت کے کثیر درجات میں صرف ان سو درجوں کا بیان کرنا مقصود ہو ، جن میں سے ہر دو درجوں کا درمیانی فاصلہ مذکور فاصلہ سے کم یا زیادہ ہوگا۔

دیلمی نے مسند فردوس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ جنت میں ایک درجہ وہ ہے جس تک اصحابِ ہموم کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچے گا۔

"فردوس " جنت کا نام ہے اور یہ نام قرآن کریم میں بایں طور مذکور ہے کہ :

{اُولٰئكَهُمُ الْوٰرِثُوْنَ 10 الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 11 }[ المؤمنون : 11-10]

"یہی ( پاک طینت پاک کردار ) لوگ ( جن کا پچھلی آیتوں میں ذکر ہوا ) وارث بنیں گے ( یعنی فردوس کی میراث حاصل کریں گے ( اور ) اس میں ہمشہ ہمیشہ رہیں گے "

چاروں نہروں " سے مراد پانی ، دودھ شہد اور شراب کی وہ نہریں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں کیا گیا ہے :

{فیها انهار من ماء غیر اٰسن وانهار من لبن لم یتغیر طعمه و انهار من خمر لذة للشاربین وانهار من عسل مصفى}

"جنت میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہیں جس میں ذرا تغیر نہ ہوگا اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرا بدلہ ہوا نہ ہوگا اور بہت سی نہریں شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو بالکل صاف و شفاف ہوگا ۔ "

"فردوس ہی کے اوپر عرشِ الہٰی ہے، " یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فردوس سب جنتوں سے افضل اور اوپر ہے کہ اس کے اوپر بس عرشِ الہٰی ہے ۔ اسی  لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو؛ تاکہ سب سے اعلی اور سب سے بہتر جنت تمہیں حاصل ہو ۔"

فتح الباري - ابن حجر - (11 / 221):

"و ممن جزم بذلك السهيلي فقال: الأسماء الحسنى مائة على عدد درجات الجنة."

المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم - (12 / 28):

"وقوله صلى الله عليه وسلم: (( وأخرى ترفع بها العبد مائة درجة )) ؛ أي : خصلة أخرى . والدرجة : المنزلة الرفيعة ، ويراد بها غرف الجنة ومراتبها ؛ التي أعلاها الفردوس ، كما جاء في الحديث . ولا يظن من هذا : أن درجات الجنة محصورة بهذا العدد ، بل هي أكثر من ذلك ، ولا يُعلمم حصرها ولا عددها إلا الله تعالى ، ألا تراه قد قال في الحديث الآخر : (( يقال لصاحب القرآن : اقرأ وارق ، فإن منزلتك عند آخر آية تقرؤها )) ؛ فهذا يدل : على أن في الجنة درجات على عدد آي القرآن ، وهي نيف على ستة آلاف آية ، فإذا اجتمعت للأنسان فضيلة الجهاد مع فضيلة القرآن ، جمعت له تلك الدرجاث كلها . وهكذا ما زادت أعماله زادت درجاته . 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (2 / 512):

"(تدخلوا جنة ربكم) : جواب الأوامر السابقة أي: من غير سابقة عذاب ; لأن الغالب من فعل الأشياء المذكورة فهو يكون من الصالحين، والمراد: تنالوا من درجات الجنة ما يليق بأعمالكم ; لأن الحق أن دخول الجنة بفضل الله والدرجات على حسب الطاعات."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (4 / 1469):

"(وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقال)، أي عند دخول الجنة وتوجه العاملين إلى مراتبهم على حسب مكاسبهم (لصاحب القرآن) ، أي من يلازمه بالتلاوة والعمل لا من يقرؤه وهو يلعنه (اقرأ وارتق) ، أي إلى درجات الجنة أو مراتب القرب (ورتل) ، أي لا تستعجل في قراءتك في الجنة التي هي لمجرد التلذذ والشهود الأكبر كعبادة الملائكة (كما كنت ترتل) ، أي قراءتك، وفيه إشارة إلى أن الجزاء على وفق الأعمال كمية وكيفية (في الدنيا) من تجويد الحروف ومعرفة الوقوف الناشئ عن علوم القرآن ومعارف الفرقان (فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها) وقد ورد في الحديث أن درجات الجنة على عدد آيات القرآن، وجاء في حديث «من كان من أهل القرآن فليس فوقه درجة» فالقراء يتصاعدون بقدرها، قال الداني: وأجمعوا على أن عدد آي القرآن ستة آلاف آية ثم اختلفوا فيما زاد، فقيل: ومائتا آية وأربع آيات، وقيل: وأربع عشرة، وقيل: وتسع عشرة، وقيل: وخمس وعشرون، وقيل: وست وثلاثون، وفي حديث عند الديلمي في سنده كذاب: " «درج الجنة على قدر آي القرآن، بكل آية درجة، فتلك ستة آلاف آية ومائتا آية وست عشرة آية، بين كل درجتين مقدار ما بين السماء والأرض»."

جنت کے تمام درجات کے ناموں کی تصریح کتب  میں موجود نہیں،  البتہ بعض  درجات کے نام نصوص کی روشنی میں علماءِ کرام  نے  لکھے  ہیں، جیسے : جنة الماوى، جنة العدن، دارالخلد، جنة النعیم ، دار المقام، جنة الفردوس وغیرہ۔

جنت میں مختلف  اعمال  والوں  کے داخلے کے  لیے مختلف  دروازے  ہوں گے،صحیح یہ ہے کہ تمام دروازوں کے نام کا احاطہ ممکن نہیں ، البتہ بعض اعمال والوں کے لیے بعض دروازوں کے نام اور ان کی تعیین روایات میں موجود ہے۔ایسی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے شراح ان دروازوں میں آٹھ دروازوں کا ذکر فرمایاہے، جیساکہ آٹھ کے عدد کا ذکر روایات میں بھی موجود ہے، ملاعلی قاریؒ کے بقول حدیث میں "في الجنة"کے الفاظ مذکور ہیں ، یعنی جنت میں یہ دروازے ہیں ،(ان کے علاوہ کی نفی نہیں )یہ نہیں فرمایاکہ "للجنة"یعنی جنت کے لیے فقط یہی دروازے ہیں ۔ ان میں آٹھ مشہور دروازے یہ  ہیں :

(1)باب الصلاة

(2)باب الجهاد

(3)باب الریان

(4)باب الصدقة

ان چار کا ذکر صحیح بخاری کی روایت  میں صراحتاً موجود ہے ۔

(5)باب الحج

(6)باب الكاظمین والعافین عن الناس

(7)باب المتوكلین

(8)باب الذكر یا باب العلم

ان بقیہ کا ذکر احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے شارحین نے کیا ہے۔

صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري - (3 / 32):

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللهِ نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا خَيْرٌ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاَةِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا قَالَ نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ.

صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري - (4 / 145):

"عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : فِي الْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ فِيهَا بَابٌ يُسَمَّى الرَّيَّانَ لاَ يَدْخُلُهُ إِلاَّ الصَّائِمُونَ."

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (16 / 245)

"قوله: إن في الجنة بابا قيل إنما قال في الجنة ولم يقل للجنة ليشعر بأن في الباب المذكور من النعيم والراحة ما في الجنة فيكون أبلغ في التشويق إليه قلت وإنما لم يقل للجنة ليشعر أن باب الريان غير الأبواب الثمانية التي للجنة وفي الجنة أيضا أبواب أخر غير الثمانية منها باب الصلاة وباب الجهاد وباب الصدقة على ما يجيء في الحديث الآتي وفي (نوادر الأصول) للحكيم الترمذي من أبواب الجنة باب محمد وهو باب الرحمة وهو باب التوبة وهو منذ خلقه الله مفتوح لا يغلق فإذا طلعت الشمس من مغربها أغلق فلم يفتح إلى يوم القيامة وسائر الأبواب مقسومة على أعمال البر باب الزكاة باب الحج باب العمرة وعند عياض باب الكاظمين الغيط باب الراضين الباب الأيمن الذي يدخل منه من لا حساب عليه وفي ( كتاب الآجري ) عن أبي هريرة عن النبي قال إن في الجنة بابا يقال له باب الضحى فإذا كان يوم القيامة ينادي مناد أين الذين كانوا يديمون على صلاة الضحى هذا بابكم فادخلوا وفي ( الفردوس ) عن ابن عباس يرفعه للجنة باب يقال له الفرح لا يدخل منه إلا مفرح الصبيان وعند الترمذي باب للذكر وعند ابن بطال باب الصابرين وذكر البرقي في ( كتاب الروضة ) عن أحمد بن حنبل حدثنا روح حدثنا أشعث عن الحسن قال إن لله بابا في الجنة لا يدخله إلا من عفا عن مظلمة وفي كتاب ( التخبير ) للقشيري عن النبي الخلق الحسن طوق من رضوان الله في عنق صاحبه والطوق مشدود إلى سلسلة من الرحمة والسلسلة مشدودة إلى حلقة من باب الجنة حيث ما ذهب الخلق الحسن جرته السلسلة إلى نفسها حتى يدخله من ذاك الباب إلى الجنة فهذه الأبواب كلها داخلة في داخل الأبواب الثمانية الكبار التي ما بين مصراعي باب منها مسيرة خمسمائة عام فإن قلت روى الجوزقي في هذا الحديث من طريق أبي غسان عن أبي حازم بلفظ إن للجنة ثمانية أبواب منها باب يسمى الريان لا يدخله إلا الصائمون قلت روى البخاري هذا من هذا الوجه في بدء الخلق لكن قال في الجنة ثمانية أبواب وهذا أصح وأصوب."

شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك - (3 / 67):

"قال الحافظ: فذكر أربعة أبواب من أبواب الجنة وهي ثمانية وبقي الحج فله باب بلا شك والثلاثة باب الكاظمين الغيظ العافين عن الناس رواه أحمد عن الحسن مرسلا إن لله بابا في الجنة لا يدخله إلا من عفا عن مظلمة والباب الأيمن الذي يدخل منه من لا حساب عليه ولا عذاب والثامن لعله باب الذكر ففي الترمذي ما يومي إليه ويحتمل أنه باب العلم ويحتمل أن المراد بالأبواب التي يدعى منها أبواب من داخل أبواب الأصلية لأن الأعمال الصالحة أكثر عددا من ثمانية انتهى."

فتح الباري - ابن حجر - (7 / 28):

"عن أبي هريرة لكل عامل باب من أبواب الجنة يدعى منه بذلك العمل أخرجه احمد وبن أبي شيبة بإسناد صحيح قوله يا عبد الله هذا خير لفظ خير بمعنى فاضل لا بمعنى أفضل وان كان اللفظ قد يوهم ذلك ففائدته زيادة ترغيب السامع في طلب الدخول من ذلك الباب وتقدم في أوائل الجهاد بيان الداعي من وجه اخر عن أبي هريرة ولفظه دعاه خزنة الجنة كل خزنة باب أي خزنة كل باب أي فل هلم ولفظة فل لغة في فلان وهي بالضم وكذا ثبت في الرواية وقيل انها ترخيمها فعلى هذا فتفتح اللام قوله فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة وقع في الحديث ذكر أربعة أبواب من أبواب الجنة وتقدم في أوائل الجهاد وان أبواب الجنة ثمانية وبقي من الأركان الحج فله باب بلا شك واما الثلاثة الأخرى فمنها باب الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس رواه احمد بن حنبل عن روح بن عبادة عن أشعث عن الحسن مرسلا ان لله بابا في الجنة لايدخله الا من عفا عن مظلمة ومنها الباب الأيمن وهو باب المتوكلين الذي يدخل منه من لا حساب عليه ولا عذاب واما الثالث فلعله باب الذكر فان عند الترمذي ما يومئ إليه ويحتمل ان يكون باب العلم والله اعلم ويحتمل ان يكون المراد بالأبواب التي يدعى منها أبواب من داخل أبواب الجنة الأصلية لان الأعمال الصالحة أكثر عددا من ثمانية والله اعلم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں