بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنگل یا بیابان میں ملنے والی لاش کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا حکم


سوال

اگر انجان جگہ جیسا کہ جنگل یا بیاباں میں لاش مل جائے، جس کا سر اور ناف سے نچلا حصہ موجود نہیں ہے ،تو مردے کا تعین کیسےکیا جائے گا کہ مسلمان ہےیا اہلِ کتاب ہے یا بت پرست؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی مسلمان لاش کا سر اورآدھے سے زیادہ جسم موجود ہو تو اس پر غسل ونمازِ جنازہ کے احکام جاری ہوتے ہیں اور اگر آدھے حصے سے کم ہے تو اس کو غسل دینا اور جنازہ کی نماز پڑھنا فرض نہیں ہوتا ،البتہ اس کو دفن کردینا لازم ہوتا ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب جنگل یا بیابان میں ملنے والی لاش کاسر اور ناف سے نیچے والا حصہ موجود نہیں ہے تو اس پر غسل ونمازِ جنازہ کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

باقی رہی یہ بات کہ اگر کوئی لاش مل جائے اور اس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ یہ مسلم ہے یا غیر مسلم ؟ تو اس سلسلے میں پہلے علامات دیکھی جائیں گی ،اگر مسلمان ہونے کی علامات پائی جائیں تو اس صورت میں اس کے ساتھ مسلمان والا معاملہ کیا جائے گا اور اگر کفر کی علامات پائی جائیں تو کافر والا معاملہ کیا جائے گا اور اگر کسی قسم کی علامات نہ پائی جائیں تو مکان کا اعتبار ہوگا ،اگر مسلمانوں کے علاقہ میں یا ان کے علاقہ کے قریب پائی جائے تو مسلمانوں والا معاملہ کیا جائےگا اور اگر کفار کے علاقہ میں یا ان کے علاقہ کے قریب پائی جائے تو غیر مسلم والا معاملہ کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجد رأس آدمي) أو أحد شقيه (لا يغسل ولا يصلى عليه) بل يدفن إلا أن يوجد أكثر من نصفه ولو بلا رأس .

(قوله ولو بلا رأس) وكذا يغسل لو وجد النصف مع الرأس بحر."

(كتاب الصلاة ،باب صلاة الجنازة،199/2،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعلى هذا يخرج ما إذا وجد طرف من أطراف الإنسان كيد أو رجل أنه لا يغسل؛ لأن الشرع ورد بغسل الميت، والميت اسم لكله ولو وجد الأكثر منه غسل؛ لأن للأكثر حكم الكل، وإن وجد الأقل منه، أو النصف لم يغسل كذا ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي؛ لأن هذا القدر ليس بميت حقيقة وحكما، ولأن الغسل للصلاة وما لم يزد على النصف لا يصلى عليه، فلا يغسل أيضا، وذكر القاضي في شرحه مختصر الطحاوي أنه إذا وجد النصف ومعه الرأس يغسل، وإن لم يكن معه الرأس لا يغسل فكأنه جعله مع الرأس في حكم الأكثر؛ لكونه معظم البدن.ولو وجد نصفه مشقوقا لا يغسل لما قلنا، ولأنه لو غسل الأقل أو النصف يصلى عليه؛ لأن الغسل لأجل الصلاة.ولو صلي عليه لا يؤمن أن يوجد الباقي فيصلى عليه فيؤدي إلى تكرار الصلاة على ميت واحد، وذلك مكروه عندنا، أو يكون صاحب الطرف حيا فيصلى على بعضه، وهو حي وذلك فاسد، وهذا كله مذهبنا."

(كتاب الصلاة،فصل الغسل،فصل شرائط وجوب الغسل،302/1،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"جب میت کا جسم آدھا سر کے ساتھ ( یعنی سر بھی ہو ) تو وہ پورے جسم کے حکم میں ہے ،بطریقِ مسنون تجہیز وتکفین اور تدفین کی جائے اور نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے اور اگر آدھا جسم بلا سر کے ہو تو ایسی میت کے لیے نہ بطریقِ مسنون غسل ہے، نہ تکفین ،نہ تدفین اور نہ نمازِ جنازہ ،نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں رکھ دیاجائے اور مٹی ڈال دی جائے ،آدھےسے کم جسم ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔"

(کتاب الجنائز ، میت کے نصف جسم پر جنازہ کی نماز صحیح ہے یا نہیں ؟،39/7،ط:دار الاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لو لم يدر أمسلم أم كافر، ولا علامة فإن في دارنا غسل وصلي عليه وإلا لا.

(قوله فإن في دارنا إلخ) أفاد بذكر التفصيل في المكان بعد انتفاء العلامة أن العلامة مقدمة وعند فقدها يعتبر المكان في الصحيح لأنه يحصل به غلبة الظن كما في النهر عن البدائع. وفيها أن علامة المسلمين أربعة الختان والخضاب ولبس السواد وحلق العانة اهـ قلت: في زماننا لبس السواد لم يبق علامة للمسلمين."

(كتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة،201/2،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں