میرا گارمنٹس کا کام ہے، اورپرنٹنگ ملز سے ہم مختلف ڈیزائن پرنٹ کرواتے ہیں ،2023ءمیں کچھ کیرکٹر ڈیزائن کروائے تھے جس کا فتویٰ سائٹ بنوریہ سے لیا تھا ،لیکن اب پرنٹنگ مل کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ہے ، وہ بنوری ٹاؤن کا فتوی لینا چاہتے ہیں ،یہ ٹوٹل پانچ ڈیزائن ہیں ،اس میں ہم نے آنکھوں کو دائرہ اور ستاروں کی صورت میں کردیا ہے تو کیا وہ تصویر کے حکم میں ہیں یا نہیں ؟اور کب تصویر کے حکم میں نہیں ہوں گے؟
شریعت اسلام میں جاندار کی تصویر کشی سخت ضرورت کے بغیر عام حالات میں حرام ومعصیت ہے اور احادیثِ طیبہ میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر کشی کرنے والوں کو ہوگا“۔
اگر جان دار کی تصویر میں اس طرح کا تصرف کردیا جائے کہ دیکھنے کے بعد جان دار کی حکایت ہورہی ہو تب بھی حرام تصویر ہی رہتی ہے؛ لہٰذا اس طور پر تصویر بنوانا یاپرنٹنگ وغیرہ کرنا کہ چہرہ سے صرف آنکھیں ہٹادی جائیں تو اس سے وہ تصویرکے حکم سے خارج نہیں ہوتی ،کیوں کہ اس تصویر سے بھی جاندار کی حکایت ہوتی ہے ،لیکن اگر اس طرح کا تصرف کردیا جائے کہ دیکھنے کے بعد جان دار کی تصویر معلوم نہ ہو (مثلًا تصویر میں سر یا چہرہ مکمل طور پر ہٹا دیا جائے) تو وہ تصویر کےحکم سے نکل جاتی ہے،لہٰذا صورت ِمسئولہ میں آنکھوں کو دائرہ اور ستارورں کی صورت میں کرنے سے مذکورہ ڈیزائن تصویر ہی کےحکم میں ہیں ،اس سےبھی اجتناب ضروری ہے ،البتہ ان ڈیزائن میں سر کو ہٹادیا جائے تو یہ تصویر کے حکم میں نہیں ہوگایا کسی غیر جاندار کی تصویر پرنٹنگ کی جائے۔
صحیح مسلم میں ہے:
" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :إن أصحاب هذه الصور يعذبون. ويقال لهم: أحيوا ما خلقتم".
(كتاب اللباس والزينة، باب: تحريم تصوير صورة الحيوان، وتحريم اتخاذ ما فيه صورة غير ممتهنة بالفرش ونحوه، وأن الملائكة عليهم السلام لا يدخلون بيتا فيه صورة ولا كلب، ج:3، ص:1669، ط:داراحیاء التراث العربي بیروت)
"ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یقیناً، ان تصویروں کے بنانے والے عذاب دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گاجو کچھ تم نے بنایا ہے، اسے زندہ کرو۔"
وفیہ ایضاً:
"عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أشد الناس عذاباً يوم القيامة المصورون ".
(كتاب اللباس والزينة، باب: تحريم تصوير صورة الحيوان، وتحريم اتخاذ ما فيه صورة غير ممتهنة بالفرش ونحوه، وأن الملائكة عليهم السلام لا يدخلون بيتا فيه صورة ولا كلب، ج:3، ص:1670، ط:دار احیاء التراث العربي بیروت)
"ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔“
الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:
"أو مقطوعة الرأس أو الوجه) أو ممحوة عضو لاتعيش بدونه (أو لغير ذي روح لا) يكره؛ لأنها لاتعبد وخبر جبريل مخصوص بغير المهانة كما بسطه ابن الكمال.
(قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله لأنها لاتعبد بدون الرأس عادة وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين بحر (قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها لأنها تبقى معه صورة تامة تأمل (قوله: أو لغير ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: "فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له" رواه الشيخان، ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر".
( کتاب الصلاة، باب مایفسدالصلاة وما یکره فیها، ج:1، ص: 648، ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
" (قوله: أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً؛ ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: أيكم ينطلق إلى المدينة فلايدع بها وثناً إلا كسره ولا قبراً إلا سواه ولا صورةً إلا لطخها» اهـ.
وأما قطع الرأس عن الجسد مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك ولهذا فسر في الهداية المقطوع بمحو الرأس كذا في النهاية. قيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين. وفي الخلاصة: وكذا لو محى وجه الصورة فهو كقطع الرأس".
(کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیھا،تغميض عينيه في الصلاة، ج:2، ص:30، ط: دار الکتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101803
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن