بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاندار کی تصویر پرنٹ کرنے کا حکم


سوال

مجھے کلر پرنٹ کے کاروبار کے بارے میں معلوم کرنا تھا ، کلر پرنٹ کے کام کاکیا حکم ہے؟ اکثر کسٹمر ایک دکان سے ڈیزائن بنوا کر ہمارے پاس آتے ہیں ،اُ س کا کلر یا بلیک اینڈ وائٹ پرنٹ نکلوانے، اور اکثر ڈیزائن میں جاندار کی تصویر بھی موجود ہوتی ہیں۔ ہم اُ ن ڈیزائن کا صرف پرنٹ نکال کر دیتے ہیں اور اپنی قیمت لے لیتے ہیں، ایسی کمائی کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ اس میں جاندار کی تصویر بھی موجود ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ آج کل پرنٹیڈ تکیہ ، چائے کے مگ، کی چین، اور ٹی شرٹ پر بھی تصویر پرنٹ کی جاتی ہے، کسٹمر اپنی تصویر دیتے ہیں ہم ان تصاویر کو تکیہ کی سیٹنگ کے مطابق کر کے اُسے تکیہ، شرٹ یا مگ پر پرنٹ کرتے ہیں تو ایسا کام جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  کسی جاندار کی تصویر کو تکیہ ، ٹی شرٹ وغیرہ پرپرنٹ کرناجائز نہیں ہے، جس طرح تصویر بنانا حرام ہے، اسی طرح تصویر کا پرنٹ  کرنا بھی حرام  ہے،  البتہ اگر غیر جاندار مثلا: قدرتی خوبصورت مناظر وغیرہ جس میں ذی روح کی تصویر نہ ہو اس کا پرنٹ کرنا جائز ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنه قال سمعتُ النبيَّ صلی اللّٰہ علیه وسلم یقول: ان أشدَّ الناس عذاباً عند اللّٰہ المصوّرون۔"

(صحیح البخاري، باب بیان عذاب المصورین یوم القیامة، رقم: ۵۹۵۰)

دوسری جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"عن قتادة قال کنتُ عند ابن عباس رضي اللّٰہ عنه(الی قوله) حتی سئل، فقال: سمعتُ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من صور صورةً في الدنیا، کلف یوم القیامة أن ینفخ فیها الروح و لیس بنافخ۔ (صحیح البخاري، باب بیان عذاب المصورین یوم، القیامة) وقال العیني نقلاً عن التوضیح: قال أصحابنا و غیرهم تصویرُ صورة الحیوان حرام أشد التحریم وهو من الکبائر و سواء صنعه لما یمتهن أو لغیرہ فحرام بکل حال، لأن فیه مضاهات بخلق اللّٰہ۔۔۔۔ أما مالیس فیه صورة حیوان کالبحر ونحوہ، فلیس بحرام، و بمعناہ قال جماعة العلماء مالک والسفیان وأبو حنیفة و غیرهم۔"

(عمدة القاري، باب عذاب المصورین یوم القیامة)

ردالمحتار میں  ہے :

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها."

(كتاب الصلاة،ج:1، ص:647، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں