میت کو غسل اور کفن دینے کے بعد جب میت کو نماز جنازہ کے لیے گھر سے نکالتے ہیں تو قدم گنے جاتے ہیں، وہ قدم کس طرح اور کتنے ہوتے ہیں؟ اور کیا پڑھنا ہے؟ مکمل تفصیل سے آگاہ کریں!
میت اگر چھوٹے بچہ / بچی کی ہے تو ایک آدمی کا اٹھا لینا کافی ہے، البتہ میت اگر بالغ ہے تو ایسی صورت میں نفسِ سنت (مستحب) تو یہ ہے کہ اس کی چارپائی کے ہر پائے کو کندھے پر رکھ کر دس دس قدم چلا جائے، اور کمالِ سنت یہ ہے کہ پہلے میت کے سرہانے کی دائیں جانب کو اپنے دائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم چلا جائے، پھر میت کی پائینتی کی دائیں جانب کو اپنے دائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم چلا جائے، پھر سرہانے کی بائیں جانب کو بائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم چلا جائے، پھر پائیںتی کی بائیں جانب کو بائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم چلا جائے، نیز جنازہ لے جاتے ہوئے میت کے سر آگے کو رکھا جائے، اور جنازے کو ذرا لپک کر لے جایا جائے، البتہ دوڑا کر نہ لے جایا جائے۔
تاہم جنازہ گھر سے نکال کر لے جاتے وقت قدم گننے یا پڑھنے کا ذکر کسی روایت میں نہیں مل سکا، بلکہ مذکورہ بالا ترتیب اور چالیس قدم اُٹھانے کا ذکر فقہاءِ کرام نے نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد کے مسائل کے بیان میں کیا ہے، اس لیے جنازہ کو گھر سے نکالتے وقت قدم گننا ضروری نہیں ہے۔
ملحوظ رہے کہ اس دوران کسی قسم کا ذکر کرنا یا کلمہ شہادت پڑھنا احادیث سے ثابت نہیں، لہذا جنازہ اٹھانے والوں اور ساتھ چلنے والوں کو خاموش رہنا لازم ہے، بلند آواز سے ذکر کرنا ، یا قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا مکروہ ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"سُنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ أَرْبَعَةٌ مِنْ الرِّجَالِ، كَذَا فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ لِلشَّيْخِ أَبِي الْمَكَارِمِ إذَا حَمَلُوهُ عَلَى سَرِيرٍ أَخَذُوهُ بِقَوَائِمِهِ الْأَرْبَعِ، بِهِ وَرَدَتْ السُّنَّةُ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ.
ثُمَّ إنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ شَيْئَيْنِ نَفْسَ السُّنَّةِ وَكَمَالَهَا أَمَّا نَفْسُ السُّنَّةِ أَنْ تَأْخُذَ بِقَوَائِمِهَا الْأَرْبَعِ عَلَى طَرِيقِ التَّعَاقُبِ بِأَنْ تَحْمِلَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ عَشْرَ خُطُوَاتٍ وَهَذَا يَتَحَقَّقُ فِي حَقِّ الْجَمْعِ وَأَمَّا كَمَالُ السُّنَّةِ فَلَا يَتَحَقَّقُ إلَّا فِي وَاحِدٍ وَهُوَ أَنْ يَبْدَأَ الْحَامِلُ بِحَمْلِ يَمِينِ مُقَدَّمِ الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة.
فَيَحْمِلُهُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْمَنُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُقَدَّمُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ.
وَيُكْرَهُ حَمْلُهَا بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ بِأَنْ يَحْمِلَهَا رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا مُقَدَّمُهَا وَالْآخَرُ مُؤَخَّرُهَا إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ مِثْلُ ضِيقِ الْمَكَانِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَأْخُذَ السَّرِيرَ بِيَدِهِ أَوْ يَضَعَ عَلَى الْمَنْكِبِ وَيُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَضَعَ نِصْفَهُ عَلَى الْمَنْكِبِ وَنِصْفَهُ عَلَى أَصْلِ الْعُنُقِ، هَكَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ.
وَذَكَرَ الْإِسْبِيجَابِيُّ أَنَّ الصَّبِيَّ الرَّضِيعَ أَوْ الْفَطِيمَ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ قَلِيلًا إذَا مَاتَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ رَجُلٌ وَاحِدٌ عَلَى يَدَيْهِ وَيَتَدَاوَلَهُ النَّاسُ بِالْحَمْلِ عَلَى أَيْدِيهِمْ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ عَلَى يَدَيْهِ وَهُوَ رَاكِبٌ وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا يُحْمَلُ عَلَى الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
وَيُسْرَعُ بِالْمَيِّتِ وَقْتَ الْمَشْيِ بِلَا خَبَبٍ وَحَدُّهُ أَنْ يُسْرَعَ بِهِ بِحَيْثُ لَا يَضْطَرِبُ الْمَيِّتُ عَلَى الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ."
(كتاب الصلاة، الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ فِي الْجَنَائِزِ وَفِيهِ سَبْعَةُ فُصُولٍ، الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ، ١ / ١٦٢، ط: دار الفكر)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
"(كُرِهَ) كَمَا كُرِهَ فِيهَا رَفْعُ صَوْتٍ بِذِكْرٍ أَوْ قِرَاءَةٍ، فَتْحٌ."
فتاوی شامی میں ہے:
"قِيلَ: تَحْرِيمًا، وَ قِيلَ: تَنْزِيهًا، كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْغَايَةِ. وَفِيهِ عَنْهَا: وَيَنْبَغِي لِمَنْ تَبِعَ الْجِنَازَةَ أَنْ يُطِيلَ الصَّمْتَ. وَفِيهِ عَنْ الظَّهِيرِيَّةِ: فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يَذْكُرَ اللَّهَ - تَعَالَى - يَذْكُرُهُ فِي نَفْسِهِ {إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} [الأعراف: 55] أَيْ الْجَاهِرِينَ بِالدُّعَاءِ. وَعَنْ إبْرَاهِيمَ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَمْشِي مَعَهَا اسْتَغْفِرُوا لَهُ غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ. اهـ. قُلْت: وَإِذَا كَانَ هَذَا فِي الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فَمَا ظَنُّك بِالْغِنَاءِ الْحَادِثِ فِي هَذَا الزَّمَانِ."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مَطْلَبٌ فِي حَمْلِ الْمَيِّتِ، ٢ / ٢٣٣، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200606
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن