بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ کی نماز سے قبل تقریر کرنے کا حکم


سوال

اللہ تعالیٰ نے مجھے مختلف اکابر علماء کرام کے جنازوں میں شرکت کا موقع عنایت فرمایا ، ان سب جنازوں میں ایک مشترک نیا امر یہ پایا کہ نمازِ جنازہ سے قبل تقاریر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں میت کے محاسن کا ذکر کرکے اس کو خراجِ تحسین پیش کی جاتی ہے ،بعض دفعہ یہ سلسلہ گھنٹوں تک طویل بھی ہو جاتا ہے ،  اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ میت کے تجہیز وتکفین میں تعجیل کرنا مستحب ہے،اور بلا شرعی عذر کے اس کو تاخیر کرنا مکروہ، البتہ اگرجنازہ کی نماز سے قبل ولی کے انتظار میں  یا جنازہ کے مقررہ وقت سے قبل،موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حاضرین کے سامنے مختصر خطاب کرلیا جائے جس میں تذکیرو تعزیت کے ساتھ ساتھ میت کے محاسن بھی بیان کیے جائیں،تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، تاہم جیسا سوال میں مذکور ہے ایسی صورت اختیار کرنا جس میں جنازہ سے قبل گھنٹوں تک تقاریر کا سلسلہ جاری رہتا ہے،شرعاً قابلِ ترک ہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے۔

ہاں  اگر  ایسی  شخصیت کا انتقال ہو جس کے انتقال سے بہت لوگوں کو صدمہ ہو یا بہت لوگ تعزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہوتو اس کے لیے سہل صورت یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ تجہیز وتکفین کے بعد  دن اور وقت متعین کیے بغیر ایک جلسہ کرکے تعزیت کردی جائے، اس میں بڑی جماعت سفرکی زحمت سے بچ جاتی ہےاور میت کے متعلقین پر کثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتااور مجمع کی متفقہ دعا بھی زیادہ قبولیت کے قریب ہوتی ہے،اگر التزام کے بغیر ہو تواس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، تاہم اگر تعزیتی  اجلاس رسم   کی صورت اختیار کرلے  اور انعقاد کی وجہ شہرت ہو یا پھر لوگوں کی ملامت سے بچنا ہو تو اس کو ترک کرنا چاہیے۔

"صحيح بخاری" میں ہے:

"عن ‌زياد بن علاقة قال: «سمعت جرير بن عبد الله يقول ‌يوم ‌مات ‌المغيرة بن شعبة، قام فحمد الله وأثنى عليه وقال: عليكم باتقاء الله وحده لا شريك له، والوقار والسكينة، حتى يأتيكم أمير، فإنما يأتيكم الآن. ثم قال: استعفوا لأميركم، فإنه كان يحب العفو. ثم قال: أما بعد، فإني أتيت النبي صلى الله عليه وسلم قلت: أبايعك على الإسلام، فشرط علي: والنصح لكل مسلم. فبايعته على هذا، ورب هذا المسجد إني لناصح لكم. ثم استغفر ونزل."

(کتا ب الایمان،باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الدين النصيحة،ج:1،ص:21،ط:دار طوق النجاۃ)

"صحيح مسلم" ميں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما من ميت تصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة، كلهم يشفعون له، إلا ‌شفعوا ‌فيه."

(کتاب الجنائز، باب من صلى عليه مائة شفعوا فيهج:2،ص:654،ط:دار احیاء التراث العربی)

"سنن ابي داؤد "میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "‌اذكروا ‌محاسن موتاكم، وكفوا عن مساويهم".

(کتاب الادب، باب النهي عن سب الموتى،ج:7،ص:261،ط:دار الرسالۃ العالمیۃ)

"حاشية الطحطاوی علی مراقی الفلاح"میں ہے:

"وكذا يستحب الإسراع بتجهيزه كله" أي ‌من ‌حين ‌موته فلو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة عليه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة."

(كتاب الصلوة،باب احكام الجنائز،ص:604،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں