بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ پڑھانے کی وصیت


سوال

اگر کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا جنازہ فلاں شخص پڑھائے گا، چاہے یہ وصیت کسی وارث کے حق میں کی ہو یا غیر وارث کے حق میں، تو شریعت کی نظر میں یہ وصیت کہاں تک معتبر ہوگی؟

جواب

    جنازہ  پڑھانے  کی وصیت شرعًا معتبرنہیں،  یعنی اس وصیت پر عمل لازم نہیں ہے، اور اس وصیت کی وجہ سے اس شخص کا حق ختم نہیں ہوگا جسے نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق ہو، (مثلًا محلے کی مسجد کا امام یا ولی)، البتہ  اگر  وصیت ایسے شخص کے  لیے کی گئی ہو جو وصیت کرنے والے کا  جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار ہو تو پھر یہ وصیت نافذ  ہوگی، اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ یا  جنازہ پڑھانا جس شخص کا حق بنتا ہو وہ  اجازت   دے دے تو  پھر میت نے  جس شخص کو  جنازہ پڑھانے  کی وصیت کی ہو اس شخص کے  لیے جنازہ  پڑھانے کی اجازت ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله: (و الفتوى على بطلان الوصية) عزاه في الهندية إلى المضمرات أي لو أوصى بأن يصلي عليه غير من له حق التقدم أو بأن يغسله فلان لايلزم تنفيذ وصيته و لايبطل حق الولي بذلك.

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب تعظيم أولي الأمر واجب (2/ 221)، ط. سعيد، كراتشي)

 حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

قوله: "ولمن له حق التقدم" واليا كان أو غيره قوله: "أن يأذن لغيره".

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: باب احكام الجنائز،  فصل السلطان أحق بصلاته (ص:590)،ط. دار الكتب العلمية بيروت ، الطبعة: الطبعة الأولى 1418هـ- 1997م)

                                                                                                           فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144205200992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں