بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ میں تاخیر کا حکم


سوال

جنازے میں تاخیر کے متعلق احادیث سے روشنی ڈالیں!

جواب

جب کسی کی موت کا یقین ہوجائے تو اس کی تجہیز وتکفن اور تدفین میں  جلدی کرنا مسنون ہے، شرعی عذر یا قانونی مجبوری کے بغیر تاخیر کرنا خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو مکروہ ہے، اس سے میت  کی بے حرمتی ہوتی ہے، اور اگر  لاش  پھول جائے یا پھٹ جائے تو نماز جنازہ کے قابل نہیں  رہتی، نیز  میت کا چہرہ دیکھنا ضروری بھی نہیں ہے، جس کے لیے تدفین میں تاخیر کی جائے، رہا طبعی تقاضا تو اس کے مقابل سنت پر عمل کرنا بہتر ہے، اور سنت یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو تدفین کردی جائے۔

میت کو غسل دینے اور تکفین و تدفین کے انتظام کے بعد نمازِ جنازہ میں تاخیر سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، نیز نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم بھی حدیث مبارک میں وارد ہے، لہٰذا نمازِ جنازہ کے بعد صرف چہرہ دکھانے کے لیے تدفین میں تاخیر کرنا مکروہ اور خلافِ سنت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ويسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله». والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء". (2/ 193)

ترجمہ: "میت کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کی جائے، اس حدیث کی بنا پر جو ابو داود نے روایت کی ہے کہ جب آں حضورﷺ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ کی عیادت کر کے واپس لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ ان میں  موت سرایت کر چکی ہے، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کر نا؛ تاکہ میں  ان کی نماز پڑھاؤں  اور ان کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کرو، اس لیے کہ مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں  ہے کہ اس کو اس کے گھر والوں  کے درمیان روکا جائے"۔ اور میت پر موت کا اثر ظاہر ہوتے ہی فوراً تدفین اس لیے واجب نہیں کی گئی کہ کہیں یہ بے ہوشی نہ ہو، یعنی جب موت کا اطمینان ہوجائے تو پھر تدفین میں جلدی لازم ہوگی۔ (شامی)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق(2/ 206):

"(قوله: ويعجل به بلا خبب) وهو بمعجمة مفتوحة وموحدتين ضرب من العدو، وقيل: هو كالرمل وحد التعجيل المسنون أن يسرع به بحيث لا يضطرب الميت على الجنازة؛ للحديث: «أسرعوا بالجنازة، فإن كانت صالحةً قربتموه إلى الخير، وإن كانت غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم». والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت، ولو مشوا به بالخبب كره؛ لأنه ازدراء بالميت وإضرار بالمتبعين، وفي القنية، ولو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة ودفنه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة".

سنن الترمذي (3/ 335):

"عن أبي هريرة : يبلغ به النبي صلى الله عليه و سلم قال: أسرعوا بالجنازة فإن يكن خيرًا تقدموها إليه وإن يكن شرًّا تضعوه عن رقابكم."

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جنازے کو جلدی لے جاؤ؛ اس لیے کہ اگر خیر ہو تو تم اسے خیر کی طرف بڑھادوگے، اور اگر وہ شر ہے تو اپنی گردنوں سے اتاردو گے۔

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (2/ 455):

عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أسرعوا بالجنازة، فإن تكن صالحة، فخير تقدمونها إليه، وإن تكن غير ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم".

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (2/ 460):

"أن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب حدثه عن أبيه عن جده علي بن أبي طالب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا تؤخروا الجنازة إذا حضرت".

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنازہ جب حاضر ہوجائے تو تاخیر نہ کرو۔

"عن علي رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "يا علي! ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا أٰنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤًا."

(جامع الترمذي، أبواب الصلاة، باب ماجاء في الوقت الأول من الفضل، (1/43) ط: قدیمی کراچی)

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے علی! تین کاموں میں تاخیر نہ کرو: نماز کا جب وقت ہوجائے، جنازہ جب حاضر ہوجائے، اور لڑکی جب تم اس کے لیے برابری کا رشتہ پالو۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں