بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ میں شرکت کیلئے سفر کرنا


سوال

میت کے جنازہ کی نماز  میں شرکت کے لئے سفر کرنا جائز ہے؟ کیا حد ہے دوری کی ؟

جواب

کسی مسلمان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے متعلق احادیث میں بہت فضیلت وارد ہوئی ہے، اور اس کو مسلمان بھائی کا حق بھی قرار دیا گیا ہے۔ نیز  جیسے کسی قریبی عزیز سے اس کی زندگی میں ملاقات کیلئے سفر کرنا جائز ہے، اسی طرح کسی قریبی عزیز کے جنازہ میں (اس سے قلبی تعلق کی وجہ سے) شرکت کرنے کیلئے سفر کرنے میں بھی شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ، اور نہ ہی اس سفر کی مسافت سے متعلق شریعت میں کوئی حد بندی ہے۔

عمدۃ القاری  میں ہے:

"من أحسن محامل هَذَا الحَدِيث أَن المُرَاد مِنْهُ حكم الْمَسَاجِد فَقَط وَأَنه لَا يشد الرحل إِلَى مَسْجِد من الْمَسَاجِد غير هَذِه الثَّلَاثَة فَأَما قصد غير الْمَسَاجِد من الرحلة فِي طلب الْعلم وَفِي التِّجَارَة والتنزه وزيارة الصَّالِحين والمشاهد وزيارة الإخوان وَنَحْو ذَلِك فَلَيْسَ دَاخِلا فِي النَّهْي۔"

‌‌(«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» ,‌‌(كتاب التَّطَوُّعِ),بَاب فضل الصَّلَاة فِي مَسْجِد مَكَّة وَالْمَدينَة, (7/254),الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

جنازہ میں شرکت  کرنے کے فضائل سے متعلق احادیثِ مبارکہ بمع ترجمہ ملاحظہ ہوں :

"وَعَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ مَاتَ لَهُ ابْنٌ بِقُدَيْدٍ أَوْ بِعُسْفَانَ فَقَالَ: يَا كُرَيْبُ انْظُرْ مَا اجْتَمَعَ لَهُ مِنَ النَّاسِ؟ قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَاسٌ قَدِ اجْتَمَعُوا لَهُ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: تَقُولُ: هُمْ أَرْبَعُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: أَخْرِجُوهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَايُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللَّهُ فِيهِ»".

( مشكاة المصابيح، ۱/۵۲۳،كتاب الْجَنَائِز،بَاب غسل الْمَيِّت وتكفينه، الْفَصْل الأول،  المكتب الإسلامي)

ترجمہ :" حضرت عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ مقام قدید یا مقام عسفان میں (کہ جو مکہ کے قریب جگہیں ہیں) ان کے صاحب زادے کا انتقال ہوا (اور جنازہ تیار ہوا) تو انہوں نے کہا: " کریب! جا کر دیکھو کہ نماز جنازہ کے لیے کتنے آدمی جمع ہو گئے ہیں؟ حضرت کریب کہتے ہیں کہ میں (یہ دیکھنے کے لیے) نکلا تو میں نے یہ دیکھا کہ کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں، میں نے واپس آ کر حضرت عبداللہ بن عباس کو بتایا (کہ بہت کافی لوگ جمع ہو گئے ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا : تمہارے خیال میں ان لوگوں کی تعداد چالیس ہو گی؟ میں نے عرض کیا :" ہاں!" حضرت ابن عباس نے فرمایا : تو پھر جنازہ (نماز کے لیے ) باہر نکالو، کیوں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرے اور اس کے جنازہ کی نماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے۔"

"عن أبي هريرة، يرويه، قال: «من تبع جنازةً فصلّى عليها، فله قيراط، ومن تبعها حتى يفرغ منها فله قيراطان، أصغرهما مثل أحد -أو أحدهما مثل أحد-»".

(سنن أبي داود ، ۳/۲۰۲،كتاب الجنائز،بَابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ وَتَشْيِيعِهَا، المكتبة العصرية)

ترجمہ :"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ چلا اور اس پر نماز پڑھی تو اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا اور جو شخص میت کی تدفین تک جنازہ کے ساتھ رہا تو اس کو دو قیراط کے برابر ثواب ملے گا۔  اور یہ قیراط ایسے ہیں کہ ان میں سے چھوٹا قیراط بھی احد پہاڑ جیسا ہے۔"

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من شهد الجنازة حتى يصلى عليها فله قيراط، ومن شهدها حتى تدفن فله قيراطان»، قيل: وما القيراطان؟ قال: «مثل الجبلين العظيمين»".

(صحيح مسلم،كتاب الجنائز،باب فضل الصلاة على الجنازة واتباعها، ۲/۶۵۲، دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی جنازہ میں حاضر ہوا یہاں تک  کہ جنازہ پر نماز ادا کی تو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے اور جو اس کے دفن تک موجود رہا اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے۔ عرض کیا گیا:  دو قیراط کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا:  دو بڑے پہاڑوں کی مانند۔ "

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں