بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھنا اور لوگوں کو دکھانے کا حکم


سوال

جنازہ پڑھنے کے بعدمیت کا چہرہ دیکھنا اورلوگوں کو دکھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 مرد میت کا چہرہ مردوں اور محارم کے لیے نیز عورت کا  عورتوں اور محارم کے لیے دیکھنا جائز ہے ،البتہ میت کا چہرہ دیکھنا   نماز جنازہ سے پہلے  ہوناچاہیے (لیکن اس کی وجہ سے نمازِ جنازہ میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے) کیوں کہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم  حدیث مبارک میں وارد ہے، لہٰذا نمازِ جنازہ کے بعد صرف چہرہ دکھانے کے لیے تدفین میں تاخیر کرنا مکروہ اور خلافِ سنت ہے نیز اخروی زندگی کے آثار میت کے چہرہ پر ظاہر ہوسکتے ہیں، اس لئے جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دکھانا مناسب نہیں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتےہیں:

"(قوله ويسرع في جهازه) لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف قال ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه وعجلوا به فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله» والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة فإنه يحتمل الإغماء."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة الجنازة، ج: 2، ص: 193، ط: سعید)

یعنی :"میت کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کی جائے، اس حدیث کی بنا پر جو ابو داود نے روایت کی ہے کہ جب آں حضورﷺ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ کی عیادت کر کے واپس لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ ان میں  موت سرایت کر چکی ہے، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کر نا؛ تاکہ میں  ان کی نماز پڑھاؤں  اور ان کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کرو ، اس لیے کہ مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں  ہے کہ اس کو اس کے گھر والوں  کے درمیان روکا جائے"۔ اور میت پر موت کا اثر ظاہر ہوتے ہی فوراً تدفین اس لیے واجب نہیں کی گئی کہ کہیں یہ بے ہوشی نہ ہو، یعنی جب موت کا اطمینان ہوجائے تو پھر تدفین میں جلدی لازم ہوگی"۔

حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال «لما قبض إبراهيم ابن النبي صلى الله عليه وسلم قال لهم النبي صلى الله عليه وسلم لا تدرجوه في أكفانه حتى أنظر إليه فأتاه فانكب عليه وبكى».

قوله: (لا تدرجوه) من الإدراج أي لا تدخلوه والحديث يدل على أن من يريد النظر فلينظر إليه قبل الإدراج فيؤخذ منه أن النظر بعد ذلك لا يحسن ويحتمل أنه قال ذلك لأن النظر بعده يحتاج إلى مؤنة الكشف."

(كتاب الجنائز، باب ما جاء في النظر إلى الميت إذا أدرج في أكفانه، ج: 1، ص: 450، ط: دار الجيل - بيروت)

" حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے کفن نہ پہنانا جب تک کہ میں اُسے نہ دیکھ لوں، چناں چہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور (اسے دیکھ کر) اس پر جھک کر رونے لگے۔"

اس روایت کے حاشیے میں علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"(آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ اسے کفن مت پہنانا ۔۔۔ الخ)  ۔۔۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص میت کو دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ کفنانے سے پہلے اسے دیکھ لے، نیز اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کفنانے کے بعد میت کو دیکھنا پسندیدہ نہیں ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے اس وجہ سے فرمایا کہ کفنانے کے بعد چہرہ دیکھنے میں میت کا کفن کھولنے کی ایک گونہ مشقت بھی ہے۔"

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

"وفي اليتيمة: سألت يوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه الميت ليراه؟ قال لا بأس به."

(باب الجنائز، فصل في الكافر يموت وله ولي مسلم، ج: 3، ص: 78، ط: زکریا)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں