بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کا حکم


سوال

 نماز جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کردعاکرنا شرعاً کیسا ہے؟ بعض دیوبندی علمائے  کرام نے فرمایا کہ جھگڑے سے بچنے کے لیے دعا کر لینی چاہیے کیااس صورت میں گنجائش ہے ؟ اس سلسلے میں ایک حدیث یاحضرت علیؓ کاقول پیش کیا جاتا ہے اس کی تحقیق مطلوب  ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ نمازِ جنازہ خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا قرآن و سنت، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز کے بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مکروہ و ممنوع اور بدعت ہے، اس کی بالکل گنجائش نہیں ہے ،ہاں انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دل دل میں دعا کرنا جائز ہے۔باقی عام طور پر جس حدیث سے دعا کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے  جس کے الفاظ یہ ہے "إذا صلیتم علی المیت فأخلصوا له الدعاء"  اس روایت کا تعلق نمازِ جنازہ  کے بعد مستقل دعا سے نہیں ہے، بلکہ نمازِ جنازہ میں میت کے لیے جو دعا مانگی جاتی ہے اسی کے حوالے سے تاکید ہے کہ میت کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ دعا کیا کرو۔

محیط برہانی میں ہے :

"ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء."

(کتاب الصلاۃ،الفصل الثانی والثلاثون فی الجنائز ،ج:2،ص:205،دارالکتب العلمیۃ)

کفایت المفتی میں ہے :

"نماز جنازہ کے بعد متصل ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے اور نماز جنازہ خود ہی دعا ہے، ہاں لوگ اپنے اپنے دل میں بغیر ہاتھ اٹھائے دعائے مغفرت کرتے رہیں تو یہ جائز ہے، اجتماعی دعا ہاتھ اٹھا کر کرنا بدعت ہے۔"

(کتاب الجنائز ،ج:4،ص:97،دارالاشاعت)

عون المعبود شرح سنن ابی داود میں ہے :

"(فأخلصوا له الدعاء) قال بن الملك أي ادعوا له بالاعتقاد والإخلاص انتهى.قال المناوي أي ادعوا له بإخلاص لأن القصد بهذه الصلاة إنما هو الشفاعة للميت وإنما يرجى قبولها عند توفر الإخلاص والابتهال انتهى

وفي النيل فيه دليل على أنه لا يتعين دعاء مخصوص من هذه الأدعية الواردة وأنه ينبغي للمصلي على الميت أن يخلص الدعاء له سواء كان محسنا أو مسيئا فلأن ملابس المعاصي أحوج الناس إلى دعاء إخوانه المسلمين وأفقرهم إلى شفاعتهم ولذلك قدموه بين أيديهم وجاءوا به إليهم لا كما قال بعضهم إن المصلي يلعن الفاسق ويقتصر في الملتبس على قوله اللهم إن كان محسنا فزده إحسانا وإن كان مسيئا فأنت أولى بالعفو عنه فإن الأول من إخلاص السب لا من إخلاص الدعاء والثاني من باب التفويض باعتبار المسيء لا من باب الشفاعة والسؤال وهو تحصيل الحاصل والميت غني عن ذلك."

(باب الدعاء للمیت،ج:8،ص:344،دارالکتب العلمیۃ)

باقی جو لوگ اس کی اجازت دیتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان پیش کرتے ہیں اس کی وضاحت بحوالہ دے کر سوال دوبارہ ارسال فرمائیں ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں