بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ گاہ میں کھیل کود کا حکم


سوال

میرا ایک سوال ہے :جنازہ گاہ کے بارے میں ہمارے گاؤں میں ایک جنازہ گاہ ہے ،تقریباً تیس سال سے اس میں گاؤں کے بچے کرکٹ اور والی بال کھیلتے تھے، اور اس میں جنازے بھی ہوتے تھے، ہمارے گاؤں میں بڑے علماء گذرے ہیں، لیکن انہوں نے بھی کسی کو یہاں کھیلنے سے منع نہیں کیا، اب ہمارے گاؤں کے مسجد کے امام صاحب نے بچوں کو یہاں کھیلنے سے منع کیا ہے، اور کہا کہ میں نے اس جنازہ گاہ کو مسجد کا درجہ دیا ہے، اور یہاں کھیلنا گناہ ہے، حالاں کہ اس امام صاحب نے بھی یہاں کھیل کھیلے ہیں، اب میں نے یہ پوچھنا ہے کہ جنازہ گاہ کے شرعی احکام کیا ہیں ؟اور اس میں جنازے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں؟ میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر جنازہ گاہ مسجد کا درجہ دیا جائے، تو پھر اس ویران مسجد میں جو پانچ وقت کے نماز نہیں پڑھی جاتی، تواس کا گناہ کس کے سر ہے ؟حالاں کہ اس جنازہ گاہ کے ایک طرف تقریباً پانچ سو فٹ آور دوسرے طرف تقریباً چار سو فٹ کی فاصلے پر دو مساجد ہیں، اور دونوں میں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی ہیں، ایک سوال یہ بھی ہے کہ؛ اگر مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں تو پھر جنازہ گاہ کی کیا ضرورت ہے، لوگ جنازے مسجدوں میں کیوں نہیں پڑھتے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ زمین جنازہ گاہ کے لیے وقف کی گئی ہے، تو  اس صورت میں اس میں کھیلنا مکروہ ہے،کیوں کہ مذکورہ صورت میں جنازہ گاہ کو واقف کےمقصد کے خلاف استعمال کرنا لازم  آتا ہے،لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے،اور اگر مذکورہ زمین وقف شدہ نہ ہو، بلکہ علاقے کی مشترکہ جگہ ہو جہاں جنازےبھی ادا کیے جاتے ہیں یا کسی کی  مملوکہ زمین ہو،اور مذکورہ شخص کی طرف سے مذکورہ جگہ میں کھیلنےاجازت بھی ہو،  تو پھر بچوں کا اس کھلی جگہ پر کھیلنا جائز ہے،اور امام صاحب کو اس امر کااختیار نہیں کہ وہ کسی جگہ کو جو مسجد کا حصہ نہ ہومسجد قرار دےیا مسجد کی حیثیت ودرجہ دے دے، نیز  جناز ہ گا ہ مسجد کی طرح ہے  اس سے مقصد یہ نہیں کہ تمام احکام مسجد کی طرح ہے،صرف جوازِاقتداء یعنی ایک امام کی اقتداء میں نماز ِجنازہ یانمازِ  عید  وغیرہ پڑھنا جائز ہے،تمام احکام مسجد کی طرح نہیں ؛ مثلاً پانچ وقتہ  باجماعت نماز ادا کرنے وغیرہ  کے اعتبار سے،اوربلاکسی عذر  مسجد میں نمازِجناز اداکرنا مکروہ ہے،البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً شدید بارش ہو اور کوئی متبادل جگہ موجود نہ ہوتو اس صورت میں مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد ‌في ‌حق ‌جواز الاقتداء)وإن انفصل الصفوف رفقا بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع   ."

(کتاب الصلاۃ، ج:1 ص:657 ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"‌إنما ‌تكره ‌في ‌المسجد ‌بلا ‌عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2 ص:226 ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"واختلفوا في مصلى الجنازة والعيد فصحح في المحيط في مصلى الجنائز أنه ليس له حكم المسجد أصلا وصحح في مصلى العيد كذلك إلا في حق جواز الاقتداء وإن لم تتصل الصفوف."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، نقش المسجد، ج:2 ص:39 ط: دار الکتاب الإسلامي)

احسن الفتاوی میں ہے:

سوال:عیدگاہ میں کھیلنا کودنایااس میں دعوت وغیرہ کرناجائز ہےیا نہیں؟

جواب:عیدگاہ کا احترام بہر  کیف واجب ہے،اگرچہ اس کے مسجد ہونےمیں اختلاف ہے، مگر بے حرمتی سے حفاظت ضروری ہے،لہذا صورتِ مسئولہ کی اجازت نہیں۔

"(‌قوله: ‌به ‌يفتى. ‌نهاية) عبارة النهاية: والمختار للفتوى أنه مسجد في حق جواز الاقتداء إلخ، لكن قال في البحر: ظاهره أنه يجوز الوطء والبول والتخلي فيه، ولا يخفى ما فيه فإن الباني لم يعده لذلك فينبغي أن لا يجوز وإن حكمنا بكونه غير مسجد، وإنما تظهر فائدته في حق بقية الأحكام، وحل دخوله للجنب والحائض(ج:1ص:657 ط:سعید)"

"وأيضاً في كتاب الوقف منها عن الخانية ‌ويجنب ‌هذا ‌المكان عما يجنب عنه المساجداحتياطا.  (ج:4ص:356ط:سعید)"

(کتاب الوقف،باب المساجد،ج:6ص:428،429ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں