بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنابت کی حالت میں کام کاج کا حکم


سوال

غسلِ نجاست میں کیا کیا کام کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ غسل فرض ہوجانے کے بعد جس قدر جلدی غسل کرلے بہتر ہے، تاہم اگر کسی وجہ سے فرض غسل میں تاخیرہوجائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرط یہ کہ غسل میں تاخیر کی صورت میں نماز قضا نہ ہو اور جنابت کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا، اور اس کو ہاتھ لگانا،نماز پڑھنا،سجدۂ تلاوت کرنا،مسجد میں داخل ہونا اور طواف کرنا جائز نہیں ہے۔ان کاموں کے علاوہ باقی سارے کام کرنا جائز ہے،البتہ جنابت کی حالت میں دیگر کام کاج کے لیے بھی وضو کرنا بہتر ہے۔

اور اگر سائل کا مقصد کچھ اور معلوم کرنا ہے تو دوبارہ سوال کو مکمل وضاحت کے ساتھ لکھ کر بھیج دے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان جنبا فأراد أن يأكل أو ينام توضأ ‌وضوءه ‌للصلاة."

(‌‌كتاب الطهارة،باب الغسل،الفصل الأول،ج:1،ص:141،ط:المكتب الإسلامي)

ہدایہ میں ہے:

"وليس للحائض والجنب والنفساء قراءة القرآن " لقوله صلى الله عليه وسلم " لا تقرأ ‌الحائض والجنب شيئا من القرآن ....وليس لهم مس المصحف إلا بغلافه ولا أخذ درهم فيه سورة من القرآن إلا بصرته."

(‌‌‌‌كتاب الطهارات،باب الحيض والاستحاضة،ج:1،ص:33،ط:دار احياء التراث العربي)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط.قد نقل الشيخ سراج الدين الهندي الإجماع على أنه لا يجب الوضوء على المحدث والغسل على الجنب والحائض والنفساء قبل وجوب الصلاة أو إرادة ما لا يحل إلا به. كذا في البحر الرائق كالصلاة وسجدة التلاوة ومس المصحف ونحوه. كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الطهارة،الباب الأول في الوضوء،الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل،ج:1،ص:16،ط:رشيديه)

وفیہ ایضاً:

"(ومنها) أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور، هكذا في منية المصلي. وفي التهذيب: لاتدخل الحائض مسجدًا لجماعة. وفي الحجة: إلا إذا كان في المسجد ماء ولاتجد في غيره، وكذا الحكم إذا خاف الجنب أو الحائض سبعًا أو لصًّا أو بردًا فلا بأس بالمقام فيه، والأولى أن يتيمم تعظيمًا للمسجد، هكذا في التتارخانية.....وكذا يحرم الطواف للجنب. هكذا في التبيين."

(كتاب الطهارة،الباب السادس،الفصل الرابع،ج:1،ص:38،ط:رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101581

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں