بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جان سے مارنے کی دھمکی دینے کی صورت میں طلاق نامہ پر دستخط کرنے کا حکم


سوال

میں نے کورٹ میں اپنی پسند سے اپنی محبت کی شادی کی تھی،لیکن لڑکی کے باں باپ گھر والے اس شادی پر راضی نہیں تھے،2019ء میں میری شادی ہوئی، اس کے بعد،2020ء میں لاک ڈاؤن لگ گیا،تو میرا کام بند ہوگیا،اس کے بعد میری بیوی اپنے میکے گئی تو اس کو اس کے ماں باپ نے وہیں روک لیا،میں جب اس کو لینے گیا تو انہوں نے مجھے بہت مارا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی اور کہا آئندہ یہاں آئے تو زندہ نہیں چھوڑیں گے،میرے سسر نے مجھے  زبردستی کورٹ بھیجا اور طلاق کے پیپر پر دستخط کرائے،میں نے جان سے مارنے کی دھمکی کی وجہ سے دستخط کردیے،لیکن منہ  سے طلاق کالفظ نہیں بولا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟کورٹ جاتے وقت سسرال کی طرف  سے کوئی ساتھ نہیں گیاتھا۔

جواب

منسلکہ طلاق نامہ میں ہرایک طلاق  کے بعدجب  سائل نے اپنادستخط اورانگوٹھالگادیاتو اس  سےسائل   کی بیوی پرتین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،اوروہ حرمت مغلظہ کے ساتھ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے ،دونوں کاایک ساتھ رہنا جائز نہیں،،  عورت کی عدت تین ماہواریاں ہیں ،بشرطیکہ حاملہ نہ ہو،حاملہ  ہونے کی  صورت میں عدت وضع حمل (بچہ کی پیدائش)ہے،عدت مکمل ہونے کے بعدسائل کی بیوی  آزادہوجائے گی،اپنی مرضی سےدوسری جگہ  نکاح کرسکے گی،دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگرشوہر نے حق زوجیت اداکرلیا،یعنی ہم بستری کرلی  پھرطلاق دیدی  ،طلاق کےبعدمکمل عدت گزارنے کے بعدعورت پہلے شوہر سے نکاح کرسکے گی۔

 فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب، وغير مرسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما إن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة"

                                                                        (الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الطلاق،1/378 ط:رشیدیہ)        

دوسری جگہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز"

(الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الطلاق473/1،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں