بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جان بوجھ کر گناہ کرنے کی صورت میں توبہ کا قبول ہونا


سوال

جو گناہ ہم جان بوجھ  کر  کرتے ہیں، اس  کی  اگر  بعد میں توبہ کی جائے تو  کیا  معافی  مل  جاتی ہے؟

جواب

اگر کوئی آدمی کسی گناہ کا ارتکاب کرے  چاہے وہ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا اور چاہے جان بوجھ کرہو یا انجانے میں،  اگر  وہ نزع کی حالت سے پہلے پہلے صدقِ دل سے اپنے اس گناہ پر نادم ہوکر توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس گناہ کو معاف فرمادیتے ہیں، گناہ کی معافی اور توبہ کی قبولیت کے لیے یہ لازم نہیں کہ آدمی نے برائی انجانے میں کی ہو، بلکہ عمداً   گناہ کا مرتکب بھی سچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔قرآن کریم کی ایک آیت اور اس کا ترجمہ اور اس کی تفسیر ذیل میں نقل کی جاتی ہے:

 قرآنِ کریم میں  ارشادہے:

{اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰئِكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا} [النساء: 17]

ترجمہ:" توبہ جس کا قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہ تو ان ہی کی ہے جو حماقت سے کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر قریب ہی وقت میں توبہ کرلیتے ہیں، سو ایسوں پر تو خدا تعالیٰ توجہ فرماتے ہیں۔ اور اللہ خوب جانتے ہیں حکمت والے ہیں "۔

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

’’ کیا قصدو اختیار سے کیا ہوا گناہ معاف نہیں ہوتا؟

 یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ مجید میں لفظ  "بجهالة"  کا وارد ہوا ہے، اس سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ انجانے اور نادانی سے گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو گی، جان بوجھ کر کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے جو تفسیر اس آیت کی بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ "جهالة"سے اس جگہ پر یہ مراد نہیں ہے کہ اس کو گناہ کے گناہ ہونے کی خبر نہ ہو، یا گناہ کا قصد وارادہ نہ ہو، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو گناہ کے انجامِ بد اور اخروی عذاب سے غفلت اس گناہ پر اقدام کا سبب ہو گئی، اگرچہ گناہ کو گناہ جانتا ہو اور اس کا قصد و ارادہ بھی کیا ہو۔

دوسرے الفاظ میں جہالت کا لفظ اس جگہ حماقت و بے وقوفی کے معنی میں ہے، جیسا کہ خلاصۂ  تفسیر میں مذکور ہوا ہے، اس کی نظیر سورۂ یوسف میں ہے، حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا: {هل عملتم مافعلتم بیوسف واخیه اذ انتم جٰهلون} [۲۱:۹۸] اس میں بھائیوں کو جاہل کہا گیا ہے، حال آں کہ انہوں نے جو کام کیا وہ کسی خطا یا نسیان سے نہیں، بلکہ قصد و ارادہ سے جان بوجھ کر کیا تھا، مگر اس فعل کے انجام سے غفلت کے سبب ان کو جاہل کہا گیا ہے۔

ابو العالیہ اور قتادہ نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر متفق تھے کہ"کل ذنب أصابه عبد فهو جهالة عمداً کان أوغیره"”یعنی بندہ جو گناہ کرتا ہے خواہ بلاقصد ہو یا بالقصد بہرحال جہالت ہے۔“

امام تفسیر مجاہد نے فرمایا:"کل عامل بمعصیة الله فهو جاهل حین عملها"”یعنی جو شخص کسی کام میں اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ یہ کام کرتے ہوئے جاہل ہی ہے۔“ اگرچہ صورت میں بڑا عالم اور باخبر ہو ۔ (ابن کثیر)

اور ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے حدیث میں ارشاد ہے:"لایزني الزاني وهو مؤمن"، ”یعنی زنا کرنے والا مؤمن ہونے کی حالت میں زنا نہیں کرتا۔“  مراد یہ ہے کہ جس وقت وہ اس فعلِ بد میں مبتلا ہوا ہے اس وقت وہ ایمانی تقاضہ سے دور جا پڑا۔

اسی لیے حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ:"أمور الدنیا کلها جهالة"  ”یعنی دنیا کے وہ سارے کام جو اللہ تعالی کی فرماں برداری اور اطاعت سے خارج ہوں سب کے سب جہالت ہیں ۔“  اور وجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے والا تھوڑی دیر کی لذت کو ہمیشہ باقی رہنے والی لذت پر ترجیح دے رہا ہے اور جو اس تھوڑی دیر کی لذت کے بدلہ میں ہمیشہ ہمیشہ کا عذابِ شدید خریدے وہ عاقل نہیں کہا جا سکتا، اس کو ہر شخص جاہل ہی کہے گا، اگرچہ وہ اپنے فعلِ بد کو جانتا ہو اور اس کا قصد و ارادہ بھی کر رہا ہو ۔

خلاصہ یہ ہے کہ انسان کوئی گناہ قصداً کرے یا خطاءً دونوں حالت میں گناہ جہالت ہی سے ہوتا ہے، اسی لیے صحابہ و تابعین اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص قصداً کسی گناہ کا مرتکب ہو اس کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ (بحر محیط)‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں