بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جامعہ سے جاری شدہ فتوی پر ایک اشکال اور اس کا جواب


سوال

حضرت اس مسئلے پرنظرثانی کی درخواست کی جاتی ہے"تصویروالےجرابےمیں نمازکاحکم"جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن ۔

 https://www.banuri.edu.pk/readquestion/tasweer-wale-jurabe-me-namaz-ka-hukam-144411101809/08-06-2023 کیوں کہ آپ نے شامی کے حوالے میں علامہ نووی کا جو قول نقل کیا ہے، وہ تصویر بنانے کے بارے میں ہے نہ کہ نماز کے مکروہ ہونے کے بارے میں نیچے قلت سے علامہ شامی رحمہ اللہ  نے علامہ نووی رحمہ اللہ کے قول کی تشریح کی ہے، آپ براۓ مہربانی آگے پوری عبارت پڑھ لیں دوسری بات ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ یہ موضع اہانت میں ہے اس لیے مکرو ہ نہیں ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جو فتوی دیاگیا ہے وہ درست ہے،اورجواب کےساتھ جوحوالہ شامل کیاہےاگرچه وہ صریح نہیں ہے،ليكن فتاویٰ شامی میں(قلت) سےاگرعبارت شامل کی جائےتوحوالہ صریح ہوجائےگا،اورمذکورہ فتویٰ کےحوالہ میں جو"علامہ نووی رحمہ اللہ "کاقول مذکورہے،وہ تصویرکی حرمت بارےمیں بالکل صریح ہے،باقی سائل کوجن مفتی صاحب نےیہ بتایاہےکہ جراب میں جوتصویرہوتی ہےوہ موضع اہانت میں ہوتی ہے،یہ بات  اس وقت درست ہےکہ جب تصوير پاؤں كےنيچےہو،لہٰذا جب تصویر پاؤں کے نیچے ہو ،اوپر  کے حصے میں کسی طرف  نہ ہو تو  چوں کہ  ایسی تصویر موضعِ اہانت  میں داخل  ہے،اس لیے اس تصویر  والی جراب کو پہن کر نمازپڑھنا بالکل درست  ہوگا،جب کہ منسلکہ جواب جراب کےاوپر بنی ہوئی تصویر کےبارے میں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها.

قلت: لكن مراد الخلاصة اللبس المصرح به في المتون، بدليل قوله في الخلاصة بعد ما مر: أما إذا كان في يده وهو يصلي لا يكره وكلام النووي في فعل التصوير، ولا يلزم من حرمته حرمة الصلاة فيه بدليل أن التصوير يحرم؛ ولو كانت الصورة صغيرة كالتي على الدرهم أو كانت في اليد أو مستترة أو مهانة مع أن الصلاة بذلك لا تحرم، بل ولا تكره لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر. وعلة كراهة الصلاة بها التشبه وهي مفقودة فيما ذكر كما يأتي، فاغتنم هذا التحرير."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:647، ط: سعيد)

فقط والله أعلم

(فتویٰ برائےنظرثانی)

تصویر والے جرابے میں نماز کا حکم
سوال

 ایسی جراب جس پر گھوڑے کی تصویر بنی ہوئی  ہو تو اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں تصویر والے جراب پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ  اگر وہ تصویر مٹادی جائے یا چھپالی جائے یا اس کا چہرہ مکمل کاٹ دیا جائے یا  تصویر بہت چھوٹی ہو کہ سمجھ نہ آتی ہو  یا اس پر سیاہی مل دی جائے تو  پھر نماز میں کراہت نہیں ہوگی، صرف آنکھیں مٹانے سے وہ تصویر کے حکم سے نہیں نکلے گی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولبس ثوب فيه تماثيل) ذي روح، وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو (بحذائه) يمنة أو يسرة أو محل سجوده (تمثال) ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة (واختلف فيما إذا كان) التمثال (خلفه، والأظهر الكراهة و) لايكره (لو كانت تحت قدميه) أو محل جلوسه؛ لأنها مهانة (أو في يده) عبارة الشمني بدنه لأنها مستورة بثيابه (أو على خاتمه) بنقش غير مستبين. قال في البحر: ومفاده كراهة المستبين لا المستتر بكيس أو صرة أو ثوب آخر، وأقره المصنف.

(قوله: ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره: تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لايكره، قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لاتكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراماً لا مكروهاً إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصاً. وظاهر قوله: فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروهاً".

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاہ ومایکرہ فیہا، ج:1، ص:647، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں