بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جامعہ سے جاری شدہ فتوی کے ایک جملہ کے متعلق عبارات


سوال

آپ کے ادارہ سے درج  ذیل فتویٰ جاری ہوچکا ہے:

عنوان: نذر کا جانور کیسا ہو؟

سوال:

کیا نذرومنت کےجانورمیں عمر کی کوئی شرط ہے؟بہت سارے حضرات اتناچھوٹا جانور مدرسہ میں دیتے ہیں جس کو ذبح کرنے میں ترس آتا ہے؟

جواب:

اس مسئلہ کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔ اگر کسی متعین جانور کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہو اور وہ پہلے سے اس کی ملکیت میں ہو تو نذر کو پورا کرنے کے لیے وہی جانور ذبح کرنا کافی ہو گا گو کہ اُس میں قربانی کے جانور کی شرائط پوری نہ پائی جاتی ہوں۔

2۔ اگر کسی شخص نے مطلقاً کسی جانور کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہو (یعنی ملکیت میں جانور موجود نہ ہو ) تو نذر کے جانور کے لیے وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے لیے شرائط ہیں، لہذا اگر ان شرائط کی رعایت کیےبغیر جانور ذبح کیا جائے گا تو نذر پوری نہ ہو گی۔

آپ نے سوال میں ذکر کیا کہ لوگ مدرسے میں بہت چھوٹا جانور ذبح کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ جانور منت کا نہ ہو، بلکہ صدقہ کا ہو اور صدقہ کے جانور میں کوئی شرط نہیں ہے،اور بصورتِ نذر ممکن ہے کہ اسی متعین جانور کی نذر مانی ہو۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 85):

"ولو أوجب على نفسه بدنة ... ولو أوجب جزوراً فعليه الإبل خاصةً؛ لأن اسم الجزور يقع عليه خاصةً، ولايجوز فيهما إلا ما يجوز في الأضاحي وهو الثني من الإبل والبقر".

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144004200717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

آپ حضرات نے  جو جواب میں لکھا ہے کہ "اگر کسی متعین جانور کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہو اور وہ پہلے سے اس کی ملکیت میں ہو، تو نذر کو پورا کرنے کے لیے وہی جانور ذبح کرنا کافی ہو گا ،گو کہ اُس میں قربانی کے جانور کی شرائط پوری نہ پائی جاتی ہوں" اس بات کا حوالہ نہیں دیا ،برائے کرم کتب فقہ سے پانچ صریح حوالہ دے دیجیے۔

جواب

جامعہ سے پہلے جاری شدہ فتوی کے اس عبارت کے متعلق"  اگر کسی متعین جانور کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہو اور وہ پہلے سے اس کی ملکیت میں ہو، تو نذر کو پورا کرنے کے لیے وہی جانور ذبح کرنا کافی ہو گا ،گو کہ اُس میں قربانی کے جانور کی شرائط پوری نہ پائی جاتی ہوں"    کتبِ فقہ و فتاویٰ  سے  ثابت ہے، جہاں تک حوالہ درج نہ کرنے کی بات ہے تو ہر فتوے  میں   ہر ہر جزئیے کے حوالے  ذکر کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ فتوے کا  دلیل سے ثابت ہونا ضروری  ہے۔

بہرحال مطلوبہ حوالہ جات شامل کر دیے گئے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا، ولو ذبحها....(قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة (قوله ناذر لمعينة) قال في البدائع: أما الذي يجب على الغني والفقير فالمنذور به، بأن قال لله علي أن أضحي شاة أو بدنة أو هذه الشاة أو البدنة."

(كتاب الأضحية، ج:6 ص:320 ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"وكذا لو ماتت ‌فعلى ‌الغني غيرها لا الفقير....(قوله ‌فعلى ‌الغني غيرها لا الفقير) أي ولو كانت الميتة منذورة بعينها لما في البدائع أن المنذورة لو هلكت أو ضاعت تسقط التضحية بسبب النذر، غير أنه إن كان موسرا تلزمه أخرى بإيجاب الشرع ابتداء لا بالنذر ولو معسرا لا شيء عليه أصلا."

(كتاب الأضحية، ج:6 ص:325 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں  ہے:

"وكذا لو قال: لأهدين هذه الشاة والمسألة بحالها يلزمه هكذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الأيمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا وفيه فصلان، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2 ص:65 ط: رشیدیة)

فتاوی دارلعلوم دیوبند میں ہے:

سوال:

کسی نے کم عمر جانور معین کی تصدق کی نذر معلق مانی اب مقصود حاصل ہوگیافوراً اس جانور کو صدقہ کرنا چاہیے یا اضحیہ کے عمر کے لحاظ سے دیر کریں۔

جواب:

جتنی عمر کا بھی وہ جانور ہے جب کہ نذر اسی کے ساتھ معین ہےاسی کو ذبح کرنا کافی ہے۔

(کتاب الایمان ،باب النذور،جس متعین جانور کی نذر مانی اس کا د ے دینا کافی ہے،ج:12ص:80،81 ط: دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

سوال:

قربانی اور عقیقہ کی طرح کے جانور وں  میں عمر وغیرہ کی قیود و شروط ہیں یا نہیں؟

جواب:

ہاں نذر کے جانور کے لیے بھی وہی شروط ہیں اور وہی عمر معتبر ہے جو قربانی کے جانور کے لیےالا یہ کہ نذر کسی خاص مشخص جانور کے متعلق ہو تو پھر شرائط کا اعتبار نہ ہوگا۔

(کتاب الیمین و النذور،دوسرا باب منت ماننا،نذر کی قربانی میں قربانی اور عقیقہ کےجانور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے،  ،ج:2ص:251ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں