بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جامع مسجد کے ہوتے ہوئے مصلی میں نماز ادا کرنا


سوال

ہمارے فلیٹ کی بلڈنگ کے سامنے 3 منٹ کے فاصلے پر ایک جامع مسجد موجود ہے لیکن ہماری بلڈنگ میں ایک مُصلّی بنایا گیا ہے جہاں لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، معلوم کرنا ہے کہ بلڈنگ کے سامنے جامع مسجد ہوتے ہوئے کیا مُصلّی بنانا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قریبی مسجد کو چھوڑکر گھر میں یا مصلی میں  مستقل پانچوں وقت کی نمازوں کی جماعت  کا معمول بنانا  بغیر کسی عذر کے فرض نماز کی جماعت کا دوسری جگہ اہتمام کرنا مکروہ ہے، اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے سے  مسجد کی فضیلت اور ثواب سے محرومی ہوگی، نیز  مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے  گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں ، چنانچہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!  میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے جماعت میں نہیں آتے) اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جو لوگ نماز کے لیے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی، بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔

 جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے  کی اپنی فضیلت اور شان ہے ،جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی فضیلت وثواب محلہ کی مسجد (مصلی)میں یا گھر میں باجماعت نماز پڑھنے سے پانچ سو گنازیادہ ہے،جیساکہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ارشاد ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة ‌الرجل ‌في ‌بيته ‌بصلاة ‌وصلاته ‌في ‌مسجد ‌القبائل ‌بخمس ‌وعشرين صلاة وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخسمائة صلاة وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة وصلاته في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."

(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصلوٰۃ،باب المساجدومواضع الصلوٰۃ،الفصل الثالث،ج:۱،ص:۲۳۴،ط:المکتب الإسلامی)

ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی  نماز کے برابر اور محلہ کی مسجد میں اس پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمع ہوتا ہے ( جامع مسجدمیں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد ِ اقصیٰ ( یعنی بیت المقدس میں ) اور میری مسجد ( مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجدِ حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔‘‘

(مظاہر حق جدید،ج:۱،ص:۵۰۸،ط:دارالاشاعت کراچی)

  لہذا صورتِ مسئولہ میں جامع مسجد قریب ہوتے ہوئے مصلی میں نماز پڑھنے کا معمول بنالینا مسجد کی حق تلفی اور مکروہ ہے،لہذا  اپارٹمنٹ کے قریب جامع  مسجد موجود ہے تو مسجد میں ہی جاکر نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن صلى ‌بجماعة ‌في ‌البيت اختلف فيه المشايخ والصحيح أن للجماعة في البيت فضيلة وللجماعة في المسجد فضيلة أخرى فإذا صلى في البيت بجماعة فقد حاز فضيلة أدائها بالجماعة وترك الفضيلة الأخرى، هكذا قاله القاضي الإمام أبو علي النسفي، والصحيح أن أداءها بالجماعة في المسجد أفضل وكذلك في المكتوبات."

(كتاب الصلاة،الباب التاسع في النوافل،فصل في التراويح:1/ 116، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والمصلى) شمل مصلى الجنازة ومصلى العيد قال بعضهم: يكون مسجدا حتى إذا مات لا يورث عنه وقال بعضهم: هذا في مصلى الجنازة، أما ‌مصلى ‌العيد لا يكون مسجدا مطلقا، وإنما يعطى له حكم المسجد في صحة الاقتداء بالإمام، وإن كان منفصلا عن الصفوف وفيما سوى ذلك فليس له حكم المسجد، وقال بعضهم: يكون مسجدا حال أداء الصلاة لا غير وهو والجبانة سواء، ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ."

 (کتاب الوقف: 4/ 356، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں