بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جامع مسجد کے قریب مصلیٰ میں جمعہ ادا کرنا


سوال

 ہمارے شہر مندیا صوبہ کرناتاکہ کی جامع مسجد سے بالکل قریب مثلاً 200 یا 300 میٹر کی دوری پر ایک مصلی ٰہے ،جہاں لاک ڈاؤن سے پہلے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہاں جمعہ شروع کیا گیا تھا، اس مصلے سے بالکل قریب بس 100 یا 200  قدم کے فاصلے پر ایک اور مسجد ہے جو شافعی حضرات کی ہے جہاں  پر پہلے سے  جمعہ کی نمازہوتی ہے ،اب لاک ڈاؤن تو ختم ہوگیا، لیکن اس مصلے میں ابھی بھی جمعہ  کی نمازپڑھی جارہی ہے ،جس کی وجہ سے شہر کی جامع مسجد میں جو کہ مصلے کے بالکل قریب ہے وہاں پر تقلیل جماعت ہورہی ہے، تقریباً مسجد کی آخر کی تین صف شاید 150 سے 200 آدمی کم پڑھ رہے ہیں ،اور جامع مسجد کے اطراف میں کوئی محلّہ نہیں ہے ،مسجد بیچ مارکیٹ میں ہے جہاں پر کسی مسلمان کا گھر نہیں ہے ،اور يہ جو مصلیٰ ہے، وہاں پر ایک چھوٹا سے محلہ ہے جہاں مسلمان آباد ہیں، وہ بھی 50 گھر سے کم ہی ہیں، تو اب پوچھنا يہ ہے کہ یہاں مصلیٰ میں جمعہ کی نماز اب بھی پڑھنا درست ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے اجتماع سے مقصود مسلمانوں کی شان وشوکت کا اظہا ر ہوتا ہے،اس لیے جمعہ کی نماز جامع مسجد میں پڑھنا افضل اور بہتر ہےنیز جامع مسجد میں نماز کا ثواب بھی زیادہ ہوتاہے،اور بلا عذر مساجد کے علاوہ جمعہ کی نماز پڑھنا مکروہ ہے،تاہم جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیےمسجد کا ہونا شرط نہیں بلکہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی جمعہ کی نماز پڑھنے سے جمعہ ہوجاتاہے،لہذا صورت مسئولہ میں جب جامع مسجد بھی قریب ہے تو بلاوجہ مصلیٰ پر جمعہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں،اور اب تک جمعہ کی جونمازیں مصلی میں ادا کیں ،وہ نمازیں ادا ہوگئیں ،تاہم آئندہ کے لیےمصلی میں جمعہ کی نماز موقوف کرکے جامع مسجد میں نماز جمعہ اد ا کرنی چاہیے۔

زاد المعاد فی ھدی خیر العباد میں ہے:

"الخاصة الثالثة: صلاة الجمعة التي هي من آكد فروض الإسلام ومن أعظممجامع المسلمين، وهي أعظم من كل مجمع يجتمعون فيه وأفرضه سوى مجمع عرفة، ومن تركها تهاونا بها طبع الله على قلبه، وقرب أهل الجنة يوم القيامة وسبقهم إلى الزيارة يوم المزيد بحسب قربهم من الإمام يوم الجمعة وتبكيرهم."

(فصل فی خواص یوم الجمعہ،ج:1،ص:365،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن صلى بجماعة في البيت اختلف فيه المشايخ والصحيح أن للجماعة في البيت فضيلة وللجماعة في المسجد فضيلة أخرى فإذا صلى في البيت بجماعة فقد حاز فضيلة أدائها بالجماعة وترك الفضيلة الأخرى، هكذا قاله القاضي الإمام أبو علي النسفي، والصحيح أن أداءها بالجماعة في المسجد أفضل وكذلك في المكتوبات ولو كان الفقيه قارئا فالأفضل والأحسن يصلي بقراءة نفسه ولا يقتدي بغيره، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الصلاۃ ،الباب التاسع،فصل فی التراویح،ج:1،ص:116،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں