بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق ممکنات کے ساتھ ہے محالات کے ساتھ نہیں ( مدلل بحث)


سوال

آپ کی ویب سائٹ پر ایک فتویٰ 144404100446 بنام "اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز ممکن ہے " موجود ہے، اس پر نظر ثانی کی درخواست ہے ،فتویٰ کی درج ذیل عبارت:

  "باقی رہی یہ بات کہاللہ تعالی کے  لیے بھی نا ممکنات ہیں، تو یہ بات غلط ہے ، ممکن اور ممتنع سب اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل ہیں ، لیکن نا ممکن چیز کا صدور اللہ تعالیٰ کی ذات سے نہیں ہوتا ، لیکن صدور نہ ہونے سے قدرت کا سلب ہونالازم نہیں آتا،  اگر قدرت نہ مانی جائے تو عجز لازم آتا ہے جو  کہ  (إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدیر) کے خلاف ہے،  بلکہ اللہ تعالیٰ کسی محال اور نا ممکن چیز کا ارادہ ہی نہیں کرتا ۔" 

 یہ بات بالکل ہی غلط ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے بھی بعض چیزیں ناممکن ہیں، وہ تحت قدرت ہی نہیں، یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس پر تو دلیل کی ضرورت ہی نہیں، صاحبِ نبراس جن کی عبارت کا حوالہ دیا گیا ہے،ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"(قوله:) ولايرد النقض بمعلومات الله تعالى و مقدوراته؛ فإن الأولى أي المعلومات أكثر من الثانية أي المقدورات؛ لأن ذات الحق سبحانه معلومة له غير مقدورة له، و المحالات معلومة غير مقدورة، و العامة إذا سمعوا ذلك أنكروا إنكارًا عظيمًا، زاعمين أنه مستلزم العجز،حتى سمعت بعض الموسومين بالعلم يقول: هو قادر على خلق شريكه، و هكذا كمن بنى قصرًا، و هدم مصرًا، إذا بطل التوحيد الذي هو أعظم أصول الإسلام بمراعاة القدرة على حسب وهمه الفاسد، و أنت تعلم أن تعلق إرادة الله سبحانه بالمحال محال، و العجز إنما يلزم فيمن أراد و لم يستطع، فاحفظه."

(بحث:المحدث للعالم هو الله تعالى،ص:160،ط:مكتبه البشرٰی)"

صاحب نبراس تو یہ فرما رہے ہیں کہ  محالات  مقدورات میں سے نہیں ہیں۔

جواب

جزاک اللہ خیرًا!
سائل کے توجہ دلانے کا شکریہ!

 مذکورہ  جاری شدہ فتوے میں    تسامح ہوا ہے، سابقہ  جواب میں بھی تصحیح  کردی گئی ہے، نیز اس سوال کا    درست جواب یہ ہے کہ آیت: إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌمیں لفظ"شیئ" کے  ترجمہ   میں اگرچہ" ممکن"  كی  قيد   مستند تراجم ميں نہيں ہے،اور اسی طرح "شیئ" اپنے لغوی معنی کے اعتبارسے ممکنات ،محالات اور واجبات سب کو شامل ہے، لیکن لفظ"  شیئ  "جب  قدرت کا متعلق بنے   تو  اس سے   ممكنات ہی مراد ہوتی ہيں، جیسا کہ روح المعانی کی درج ذیل عبارت سے واضح ہے:

"والشيء لغة ما يصح أن يعلم ويخبر عنه كما نص عليه سيبويه، وهو شامل للمعدوم والموجود الواجب والممكنوتختلف إطلاقاته، ويعلم المراد منه بالقرائن فيطلق تارة، ويراد به جميع أفراده كقوله تعالى: والله بكل شيء عليم [البقرة: 282، النساء: 176، النور: 18، 64، التغابن: 11] بقرينة إحاطة العلم الإلهي بالواجب والممكن المعدوم والموجود والمحال الملحوظ بعنوان ما، ويطلق ويراد به الممكن مطلقا كما في الآية الكريمة بقرينة القدرة التي لا تتعلق إلا بالممكن، وقد يطلق ويراد به الممكن الخارجي الموجود في الذهن كما في قوله تعالى: ولا تقولن لشيء إني فاعل ذلك غدا إلا أن يشاء الله [الكهف: 23، 24] بقرينة كونه متصورا مشيئا فعله غدا، وقد يطلق ويراد به الممكن المعدوم الثابت في نفس الأمر كما في قوله تعالى: إنما قولنا لشيء إذا أردناه أن نقول له كن فيكون [النحل: 40] بقرينة إرادة التكوين التي تختص بالمعدوم، وقد يطلق ويراد به الموجود الخارجي كما في قوله تعالى: وقد خلقتك من قبل ولم تك شيئا [مريم: 9] أي موجودا خارجيا لامتناع أن يراد نفي كونه شيئا بالمعنى اللغوي الأعم الشامل للمعدوم الثابت في نفس الأمر لأن كل مخلوق فهو في الأزل شيء- أي معدوم- ثابت في نفس الأمر".

(سورة البقرة، الآية: 20 ج:1،ص: 180، ط: العلمية)

اس  سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق ممکنات کے ساتھ ہے،واجبات یا محالات کے ساتھ نہیں ،لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ ناممکنات بھی اللہ تعالی کی قدرت میں داخل ہیں۔

اس مسئلہ کاتفصیلی جواب یہ ہے:عقلی طور پر  موجودات  كی تين قسمیں ہیں ،واجب الوجود ،ممكن الوجود ،مستحیل۔

واجب الوجودوہ چیز كہ عقلاً  جس كا وجود یقینی اور عدم غیرمتصور ہو،جیسے ذات باری تعالی۔

ممكن  الوجودوہ چیز جس کا وجود یا عدم دونوں    عقلاً متصور ہوں جیسے بارش کا ہونا یا نہ ہونا۔

اور  مستحیل وہ چیز  كہ عقلاً  جس کا وجودمتصور نہ ہو ،جيسے شريك باری تعالی،ایک  چیز کا آن واحد میں  موجود   اور معدوم  ہونا۔

مختصر تمہید کے بعد عرض یہ ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق صرف ممکنات کے ساتھ ہے،واجبات یا مستحیلات  کے ساتھ   نہیں ؛کیونکہ  قدرت کے کسی چیز کے ساتھ متعلق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  اس کی جانبِ وجود یا جانب ِ عدم میں سے کسی ایک  کو ترجیح دینا،اس ترجیح کا محل صرف ممکنات ہیں،کیونکہ واجبات میں پہلے سے جانبِ وجود متعین ہے،اور مستحیلات  میں جانبِ عدم متعین ہے،لهذا واجبات اور مستحيلات قدرت كا محل نہيں بن سكتے،نیز  مستحیلات کے ساتھ قدرت الہي کے متعلق نہ ہونے سےعجز  لازم نہیں آتا، کیونکہ یہاں پر قصور  شیئ ( مستحیل یا واجب ) میں ہے کہ اس میں مقدور بننے کی صلاحیت ہی نہیں، مقدور بننے کی صلاحیت صرف ممکنات میں ہے،محالات یا واجبات میں نہیں، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ محال کے ساتھ قدرت کے  تعلق  کی دو ہی صورتیں ہیں،تعلق اعدام کا ہو گا یا ایجاد کا ،اعدام کا ہو  تو اس  میں تحصیلِ حاصل ہے،اور  تحصیلِ حاصل  محال ہے،اور اگرمحال کے ساتھ   تعلق ایجاد کا ہو تویہ اس لیے محال ہے کہ مستحیل کا وجود محال ہے، اگر محال کا وجود فرض کر لیا جائے تو وہ محال نہیں رہےگا۔نیز   یہ کہنا کہ اللہ تعالی کی قدرت  محالات (ناممکنات) کے ساتھ  بھی متعلق ہے یہ اللہ تعالی کی شان کے لائق نہیں،اس ليے كہ محالات كا وجود خلاف ِعقل ہے،اور خلافِ عقل امور كے ساتھ  قدرت الہی کو متعلق کرنا یہ اللہ تعالی کی شان کے لائق نہیں۔

 حضرت مولاناادریس کاندھلوی ؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’ حق تعالیٰ کا وجود واجب اور ضروری ہے اور عدم اس کا محال اور ممتنع ہے اور قدرت کا تعلق محالات کے ساتھ ایجاداً (یعنی قدرت اس محال کو موجود کر دے ) ہو سکتا ہے اور نہ اعداماً (یعنی قدرت اس محال کو معدوم کر دے ) اس لئے کہ محال اس کو کہتے ہیں کہ جس کا عدم حتمی اور لازم ہو اور اس کا وجود میں آنا ناممکن ہو۔ پس اگر قدرت کا محال کے ساتھ اعداماً تعلق ہو تو معدوم کا معدوم کرنا لازم آتا ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں اور اگر ایجاد اس کے متعلق ہو تو محال کا موجود ہونا لازم آتا ہے اور کوئی شئے وجود میں داخل ہونے کے بعد محال نہیں رہ سکتی۔ اور علی ہذا قدرت کا تعلق واجبات کے ساتھ نہ ایجاداً ہو سکتا ہے نہ اعداماً۔ ایجاداً تو اس وجہ سے نہیں ہو سکتا کہ موجود کرنا سراسر تحصیل حاصل ہے اور اعداماً اس وجہ سے نہیں ہو سکتا کہ واجب یعنی جس کا وجود ضروری اور حتمی تھا اس کا معدوم کرنا لازم آتا ہے۔ اور معدوم ہونے کے بعد وہ شئے واجب نہیں رہ سکتی۔‘‘

(علم الکلام، ص:84،بحث:قدرت، ط:زمزم)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’ممکنات پر قادر ہونا صفت ِ کمال ہے اور عاجز ہونا نقص ہے، جس سے اللہ تعالی پاک ہے، محالات سے پاک ہونا صفتِ کمال ہے اور محالات سے متصف ہونا نقص ہے، جس سے اللہ تعالی پاک ہے، فقط واللہ اعلم ۔‘‘

(مایتعلق باللہ وصفاتہ، ج:1 ص: 264، ط:الفاروق)

تنبیہ :سائل نے جو تعبیر استعمال کی ہے کہ (اللہ تعالیٰ کے لیے بھی بعض چیزیں ناممکن ہیں )  یہ تعبیر مناسب نہیں؛ اس لیے کہ علمائے کلام  نے لکھا ہے  کہ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ کیا اللہ تعالی فلاں محال چیز (مثلاً شریک باری تعالی)کو وجود دینے پر قادر ہیں ؟ تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ جواب اس طرح دیا جائے کہ" دلائل سے ثابت ہوچکا ہے کہ قدرت  کا تعلق ممکنات کے ساتھ    ہے،واجبات یا مستحیلات کے ساتھ نہیں ہے، اور سائل جس  چیز کے بارے میں سوال کر رہا ہے وہ مستحیلات کی قبیل سے ہے،پس یہ متعلقات ِ قدرت میں سے نہیں"،اول وہلہ میں اس طرح  جواب دینا کہ فلاں چیز(  مستحیل )پر اللہ تعالی قادر نہیں ،اس تعبیر میں سوء ادب ہے ، کہ اس میں عجز کا ایہام ہوتا ہے  ،تعالی اللہ عن ذلک علواً کبیراً

دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ممتنع( محال) کی دو قسمیں ہیں:1:ممتنع لذاتہ ، جیسے اجتماعِ ضدین  ،2:ممتنع لغیرہ جیسے کافر  کا جنت میں جانایا  مومن کا مخلد فی النار ہونا۔

اوّل  غیر مقدور ہے، یعنی اس کے ساتھ قدرت کا تعلق نہیں  ،ثانی مقدور غیر ممکن الوقوع ہے،یعنی  فی ذاتہ یہ ممکن ہے،قدرت کے تحت داخل ہے،لیکن ایک مانع کی وجہ سے اس میں امتناع آیاہے،کہ اللہ تعالی  اپنے کلام جو بات فرمائیں،اختیار کے باوجود اس کے خلاف نہ  کریں گے لقوله تعالي : ان الله لايخلف الميعاد 

نوٹ:واضح رہے کہ  یہ بحث محالِ عقلی   کے بارے میں ہے،جبکہ عرف یا عام گفتگو میں محالِ عادی یا مستبعد چیزوں پر بھی محال کا اطلاق کیا  جاتا ہے،اس کو اصطلاح میں محالِ مجازی کہتے ہیں، عام طور پر  جب یہ کہا جاتا کہ اللہ  تعالی کی قدرت محالات کے  ساتھ متعلق نہیں تو ذہن محالِ عادی  کی طرف جاتا ہے ، اور اشکالات پیدا ہوتے ہیں،حالانکہ اس  بحث کا دائرہ کار معقولات ہیں،لہذا اس مسئلہ پر گفتگو کرتے وقت  اس بات کی وضاحت کردی جائے، نیز   یہ خالص علم الکلام کا مسئلہ ہے، بلاضرورت عوام کے سامنے یہ مسئلہ بیان کرنے سے گریز کیا جائے ۔

سید حسین آفندی الطرابلسی (متوفی:1351ھ)"الحصون الحميدية"  میں لکھتے ہیں :

"أما الإرادة والقدرة فيتعلقان بالجائزات فقط . ولايتعلقان  بالواجبات ، والمستحيلات . فالأرادة تتعلق بالجائز تعلق تخصیص ـ   فيخصص الله تعالى بها فى الازل الجائز ببعض ما يجوز عليه ....

وانما لم تتعلق كل من ارادة الله تعالى ، وقدر ته لاايجادا ، ولا إعداما بالواجبات : كذاته تعالى ، وصفاته ، وملازمة الجرم للحيز ، ولا بالمستحيلات : كالشريك له تعالى ، والجمع بين النقيضين : ككون زید موجودا و معدوما في آن واحد ، فلأن الواجب حاصل حتما ولا يمكن خروجه عن الوجود إلى العدم، فلا تتعلق به الارادة والقدرة لا ايجادا لأن ذلك تحصيل حاصل وهو محال ، ولا إعداما لاستحالة عدمه وخروجه عن الوجود ، ولأن المستحيل معدوم حتما ولا يقبل الوجود فلا تتعلق به الأرادة والقدرة لا إعداما؛ لأن ذلك تحصيل حاصل، وهو محال ،ولا إيجادا لاستحالة وجوده وخروجه عن العدم . وعلى تقرير هذا المقام لو سأل سائل وقال : هل يقدر الله تعالى على إعدام الواجب الفلانى أو على إيجاد المستحيل الفلاني كشريكه تعالى؟ فالجواب المقترن بالأدب أن نقول: إن البرهان قد دل على أن قدرة الله تعالى لا تتعلق بالواجبات ولا بالمستحيلات لا ايجادا ولا إعداما وما ذكرت أيها السائل فهو من الواجبات . أو من المستحيلات فقدرة الله لا تتعلق بهما ، ولا نقول : إنه تعالى لا يقدر على ذلك لأن هذا من سوء الأدب في جانب الحضرة الالهية ويوهم العجز عليه تعالى وتقدس."

(الباب الأول ، الفصل الثالث، ص:35،ط: الکتبة التجارية بمصر)

 علامہ المقری ابراہیم بن احمد المارغینی الزیتونی المالکی ؒ (متوفی :1349ھ)"طالع البشر یٰ شرح العقيدة الصغریٰ" لکھتے ہیں :

"ولما كانت القدرة والإِرادة إِنما تتعلقان بالممكنات وصفهما المصنف بقوْله: (المتعلقتان بجميع الممكنات) أَيْ الجائزات، والصفة المتعلقة هي الّتي تفْتضي - أيْ تسْتلْزم - أَمْرا زائدا على القيام بمحلها، ويسمّى ذلك الْأمر متعلقها بفتح اللام.

والقدرة والإِرادة من الصفات المتعلقة، ومتعلقهما واحد وهو الممكنات ، وتعلقهما بها تعلق تأثير ، غيْر أن التأثير بالقدرة في وجود الممكن أو عدمه، والتأثير بالإرادة في تخصيص الممكن ببعض ما يجوز عليه. وخرج بالممكنات الواجبات والمستحيلَات، فلا يمكن أن تعتلّق".

بهما القدرة والإرادة لأن تعلّقهما بالواجبات إنْ كان لعدمها فعدمها مستحيل ؛ إذ هي لا تقبل العدم وإن كان لوجودها فهو من باب تحصيل الحاصل، وتعلقهما بالمسْتحيلات إنْ كان لوجودها فهو مستحيل لأنها لا تقبل الوجود ، وإن كان لعدمها فهو من باب تحصيل الحاصل أيضا.

لا يقال: يلزم على عدم تعلّقهما بالواجبات والمستحيلات نسْبة العجز إلى الله تعالى لقصور قدْرته وإرادته عن التعلق بهما لأنا نقول : لا عجز ولا قصور وإن توهمهما بعض الأغبياء من المبتدعة، وذلك لأن العجز والقصور إنما يلْزمان فيما يمكن أنْ تتعلّق به القدرة والإرادة ولم تتعلقا به، أما ما لا يمْكن أنْ تتعلّقا به فلا يلْزم فيه ذلك أصلا، ولا شك أن الواجبات والمستحيلات لا يمكن تعلق القدرة والإرادة بهما لما علمت ."

(صفات المعانی السبعة و حدودها و تعلقاتها، ص:83، ط:احیاء التراث الزیتونی)

"المهند علي المفند "ميں ہے:

"قال في المسائرة وشرحه المسامرة للعلامة المحقق كمال بن الهمام الحنفى و تلميذه ابن ابی الشريف المقدسي الشافعي رحمهما الله تعالى مانصه ثم قال اى صاحب العمدة ولا يوصف الله تعالى بالقدرة على الظلم والسفه و الكذب لان المحال لا يدخل تحت القدرة اى يصح متعلقا لها وعند المعتزلة يقدر تعالى على كل ذلك و لا يفعل انتهى کلام صاحب العمدة وكانه انقلب عليه ما نقله من المعتزلة اذ لا شك ان سلب القدرة عما ذكر هو مذهب المعتزلة و اما ثبوتها اى القدرة على ما ما ذكرثم الامتناع عن متعلقها اختيارا فهو بمذهب الاشاعرة اليق منه بمذهب المعتزلة ولا يخفى ان هذا الاليق ادخل في التنزيه ايضا اذ لا شك في ان الامتناع عنها اي عن المذكورات من الظلم و السفه والكذب من باب التنزيهات عما لا يليق بجناب قدسه تعالى فليسبر بالبناء للمفعول اى يختبر العقل في ان اى الفصلين ابلغ في التنزيه عن الفحشاء اهو القدرة عليه اى على ما ذكر من الامور الثلثة مع الامتناع اى امتناعه تعالى عنه مختارا لذلك الامتناع أو الامتناع اى امتناعه عنه لعدم القدرة عليه فيجب العول بادخل القولين في التنزية وهو القول اليق بمذهب الأشاعرة."

(السوال الخامس والعشرون،ص:68، ط: المیزان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں