بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

جامعہ کے فاضل کا اپنے نام کے ساتھ بنوری لگانا کیسا ہے؟


سوال

 عرض یہ ہے کہ میں جامعہ بنوری ٹاون کا فاضل ہوں اور الحمدللہ جامعہ سے قلبی تعلق ہے، اب میں اپنے علاقے میں ایک جگہ درس نظامی میں اور ایک جگہ دارلافتاء میں پڑھاتا ہوں، مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے اساتذہ کرام کی محنت اور والدین اور خاص طور پر حضرت بنوری رحمة اللہ علیہ کی دعاؤں کی برکت ہے۔ عرض یہ ہے کہ کیا میں اپنے نام کے ساتھ جامعہ کی محبت کی وجہ سے بنوری لگا سکتا ہوں یا نہیں ؟

 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں بعض دفعہ نسبت قومی اور خاندانی شناخت کے لیے ہوتی ہے، دوسری جانب ہمارے ملک میں بنوری نسبت لگانے والا پورا ایک خاندان ہے جن کی نسبت ان کے علاقے کی طرف ہے، جب کہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء کے لیے اپنے نام کے ساتھ بنوری لگانے کا کوئی تعامل  بھی نہیں، اب اگر سائل اپنے نام کے ساتھ بنوری لگائے تو یہ  مغالطہ ہوگاکہ سائل اس خاندان سے ہے، لہذا سائل کے لیے اپنے ساتھ بنوری کی نسبت لگانا درست  نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا" (سورہ حجرات: 13)

ترجمہ: ”اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف خاندان بنایا ہے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو۔“ (بیان القرآن)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا ترغبوا) : أي: لا تعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه) : أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر) : أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر. في النهاية: الدعوة بالكسر في النسب، وهو أن ينتسب الإنسان إلى غير أبيه وعشيرته، وكانوا يفعلونه فنهوا عنه، والادعاء إلى غير الأب مع العلم به حرام، فمن اعتقد إباحته كفر لمخالفة الإجماع، ومن لم يعتقد إباحته فمعنى (كفر) : وجهان، أحدهما: أنه أشبه فعله فعل الكفار، والثاني: أنه كافر نعمة الإسلام. قال الطيبي: ومعنى قوله: فالجنة عليه حرام على الأول ظاهر، وعلى الثاني تغليظ (متفق عليه) . ولفظ ابن الهمام: " من ادعى أبا في الإسلام غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام ) : وأما لفظ الكتاب فمطابق لما في الجامع الصغير."

(كتاب النكاح، باب اللعان، ج:5، ص:2170، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611102761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں