بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمہوریت کے بارے میں معتدل موقف


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کی بارے میں کہ اس وقت پاکستان میں جو جمہوری نظام رائج ہے ، اس کے بارے میں یہ بات کی جاتی ہے کہ یہ اسلامی ہے، کیوں کہ یہاں پر حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔

لیکن بندہ کو اس پر چند خدشات ہے؛ پاکستانی جمہوریت ہو یا مغربی جمہوریت ہو،دونوں میں پارلیمنٹ کے ہر فیصلے کا مدار کثرتِ رائے پر ہوتا ہے، جو حکم/بل  پارلیمنٹ کے سامنے لایا جاتا ہے ،تو یہ نہیں دیکھا جاتاہے کہ یہ کیا ہے؟ بلکہ اسے پارلیمنٹ کے سامنے لایا جاتا ہے ،اس پر بحث ہوتی ہے ،اس کے بعد اس پر ووٹنگ ہوتی ہے اگر پاس ہوا، تو ٹھیک ورنہ فیل، یہ سب کچھ ہم نے مشاہدہ کیاہے۔ چند سال قبل  ایک سکھ نے شراب کے بارے میں بل پیش کیا تھا، جو پارلیمنٹ نے مسترد کیا، شریعت بل ،حسبہ بل، نظام مصطفی بل، ہمارے سامنے ہے، اس طرح ربا بل، بھی چند سال پہلے ایک مولانا صاحب نے پیش کیا تھا، جو بھی دور ہو، اسی طرح یہاں پر ٹرانسجیڈر بل پاس ہوا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہاں ہر حکم کا مدار کثرت رائے پر  ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم کیوں نہ ہو؟ جب تک اکثریت اسے پاس نہ کریں، وہ فیل ہے ۔

تو کیا یہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوئی  یا عوام کی؟اور  جہاں تک  آئین کی اس دفعہ کے بات ہے کہ جس میں ہے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کو حاصل ہوگی، تو یہ خود کثرت رائے کی بنیاد پر آئی ہے، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوئی تھی کہ یہ آئین  سے نکالا جائے ،مگر ایک ووٹ سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت بچ گئی، نعوذ باللہ من ذلک!

تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی جمہوریت کفری ہے یا اسلامی ؟

جواب

واضح رہے کہ  انسانی معاشرے کو مہذب  اور متمدن معاشرہ کہلانے کے لیے کسی نظام اور منتظم کی ضرورت لازمی طور پر محسوس ہوتی ہے، اب یہ نظام  اور منتظم کیسے وجود میں آئیں گے؟ اس نظام کے خدو خال کیا ہوں گے اور منتظم کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی؟اس لیے مختلف زمانوں میں مختلف تجربات آزماۓ گۓ، جن  میں سے ایک تجربہ جمہوریت ہے، جو موجودہ زمانے میں دنیا کے بیشتر ممالک بشمول پاکستان میں رائج ہے، جمہوریت کو   مطلقا اسلامی  قرار دینا  جس طرح صحیح نہیں ہے بالکل اسی طرح اس کو  مطلقا کفر قرار دینا  بھی صحیح روش  نہیں ہے،خصوصا موجودہ دور میں جب مسلمان پوری دنیا میں مغلوب ہیں،لہذا ایسے موقع پر اگر کسی ملک میں جمہوریت کے تحت مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہے اور اس راہ سے وہ اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ اور حصول کے لیے مواقع پارہے ہیں تو رائج الوقت ابتر عالمی نظام میں اپنا سیاسی و سماجی وجود باقی رکھنے کے لیے جمہوریت کو کئی اصولی خرابیوں  کے باوجود گوارا کیا جاسکتا ہے، یہ گنجائش ہمارے اکابر نے آج سے تقریباً چھ دھائی قبل بتائی تھی،جو حضرت بنوری  قدس سرہ کے نام ایک خط کے جواب کے طور پر تحریر فرمائی گئی تھی، جو حضرت مولانا لطف اللہ پشاوری رحمہ اللہ کے قلم اور حضرت مفتی اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کی تصدیق و تصویب سے جاری ہوئی تھی،  ملاحظہ ہو:

سوال:

" چٹا گانگ 12 اپریل 1963ء محترم المقام حضرت العلامہ جناب مولانا بنوری صاحب زید مجدکم ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

امید ہے کہ مزاج اقدس بخیر ہوں گے،اس زمانہ میں ہر آدمی ،ہر گروہ اور ہر پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا مطالبہ کررہی ہے ،مودودی صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں ،سہروردی پارٹی بھی یہی روگ الاپ رہی ہے اور خواجہ ناظم الدین صاحب بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں لیکن یہ سوچنے کی کوشش کوئی نہیں کررہا کہ آیا اسلام میں جمہوریت ہے بھی کہ نہیں،جمہوریت کی تعریف ہے:

".Government of the people by the people for the people"

حکم الناس للناس علی الناس"،حالاں کہ اسلام کہتا ہے کہ "إن  الحكم  إلا  لله"،پھر جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے،اسلام میں بندوں کو تولتے ہیں اور جمہوریت میں گنتے ہیں، جمہوریت میں ایک مفتی اعظم اور ایک عام مزدور کی رائے میں برابری ہے لیکن اسلام میں دونوں کی رائیوں میں بہت فرق ہے،ان دونوں فرقوں کے علاوہ اسلامی نظام اور جمہوری نظام کے دوسرے اختلاف سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں، لہذا میری آپ سے یہ عرض ہے کہ برائے نوازش اپنی اولین فرصت میں تحریر فرمائیں کہ کیا پاکستان میں جمہوریت کا مطالبہ کرنا اور جمہوریت کو اسلامی بتانا جائز ہے؟ بدلائل واضحہ تحریر فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔

جواب:

بخدمت جناب محترم سلمہ ربہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! آپ کا خط مولانا یوسف بنوری کے نام آیا تھا، وہ حج کو تشریف لے گئے اور جاتے وقت آپ کا خط مجھ کو سپرد کرگئے کہ میں ان کی طرف سے آپ کو جواب لکھوں، اصل جواب لکھنے سے پہلے چند مقدمات تمہیداً عرض کرتا ہوں:

1:اسلام نجاتِ اخروی کے لیے دینِ کامل اور اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، علوم ِ شریعت اللہ تعالیٰ کے ذات وصفات کا علم ، مبدا ومعاد اور تمام وہ علوم ِ غیبیہ جس میں انسانی عقل و خرد خود کوئی راستہ نہیں نکال سکتی تھی، ان امور میں قران کریم اور تعلیم ِ نبی نے انسان کی کامل راہ نمائی کی ہے، لیکن امورِ معاش اور انسانی تعلقات کے بارہ میں چند راہ نما اصول بتا کر باقی تفصیلات کے لیے ذہنِ انسانی کو خود راستہ نکالنے کے لیے خود مختاری دے دی گئی اور انسان اپنے حالات کے ساتھ اور حوادثِ زمان کے ساتھ خود اپنے آپ کو ڈھالتا رہتا ہے اور اپنی بقا اور اپنی نوع کے تحفظ کے لیے تاریخی ادوار کے تقاضوں کے مطابق اپنی عقل سے خود اصول وضوابط بنتا رہتا ہے اور اس بارے  میں اس کو  یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ہر معاملہ میں خوفِ خدا کا خیال رکھے اور کسی حالت میں خواہشات کے اتباع میں بنی نوع انسان پر ظلم اور اپنے اقتدار  قائم کرنے کے لیے خود غرضی ، لالچ ، فریب دھوکہ بالفاظِ دیگر قوتِ غضبیہ اور قوتِ شہوانیہ کے غلامی سے  بچتا رہے اور یہ خیال رکھے کہ مجھ کو تمام اعمال میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔

2: انسان جس طرح انفرادی زندگی میں پہلے بدوِیانہ   دور (بدووں کی طرح غیر شہری زندگی  کے دور)  میں تھا ،تدریجاً شہری زندگی اختیار کرکے تمدن میں ترقی کررہاہے ،پہلے غاروں میں رہتا تھا پھر خانہ بدوش ہو کر خیموں میں رہنے  لگا ،اس کے بعد مٹی کے مکان بنائے، اس کے بعد  چونے کا  مکان تعمیر کیا، اس کے بعد سیمنٹ کا مکان بنایا اور اسی طرح کھانے پینے میں، لباس میں ،مکان میں ہر چیز میں تفنن اور تنوع پیدا  کیا ور اسی طرح ہر چیز میں ایجادات کرکے اس میں تبدیلی کرتا رہا اور انسانی زندگی کے لیے زیادہ سہولتیں مہیا کرتا رہا، بعینہ انسان اپنے لیے بہتر اجتماعی  زندگی کے متعلق بھی سوچتا رہا  اور پہلے قبائلی زندگی سے چھوٹی ریاستیں بنتی گئیں، پھر چھوٹی ریاستیں بڑی شہنشاہیت میں تبدیل ہوگئیں تو انسان نے یہ محسوس کیا کہ بڑے بادشاہ بڑی سلطنت بنا کر زیادہ  جابر اور بے رحم ہوجاتے ہیں اور قبیلے کے شیخ یا  چھوٹے نواب سے بھاگ کر کسی اور جگہ جاکر انسان مخلص پالیتاہے، لیکن بڑی بڑی شہنشاہیت کے سامنے تو فردِ انسان بالکل عاجز  اور  بے بس رہتا ہے، تمام پیغمبروں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدی احکام کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور ان کو نہ تو کوئی آسمانی قانون ظلم سے روک سکتاہےاو رنہ غریبوں کے لیے ا سپر اظہارِ ناراضگی کا بھی کوئی ذریعہ  ہوتا،اس کے علاوہ ملوکیت میں وراثت کے مسئلہ کی وجہ سے بڑی گڑ بڑ پیداہوئی، ایک بادشاہ کے مرنے پر  اس کے چند وارثوں نے جب آپس میں لڑنا شروع کیا تو اس سے بھی عام مخلوقِ خدا پر بڑی مصیبتیں نازل ہوئیں، نیز بادشاہوں کے نااہل اولاد نے بھی عیاشی اور نااہلی کی وجہ سے مخلوقِ خدا پر سخت مظالم کیے ، اس کی وجہ سے طبعی طور پر انسان  نے بادشاہوں کے اختیارات محدود کرنے اور سربراہِ سلطنت کے لیے رعایا سے استصواب کے اصول کو منظور کرایا گیا اور اس کو جمہوریت کا نام رکھا گیا، جس کی تعریف کی گئی کہ قوم خود اپنے اوپر حکومت کریں، اب جب معلوم ہوگیا کہ یہ قرونِ وسطی کے بعد انسانوں نے اجتماعی زندگی میں ایک نئی صورت نکالی، تاکہ ملوک کے استبداد سے محفوظ رہیں، اس لیے یہ تو ظاہر ہے کہ یہ جمہوریت نہ تو سنت ہے اور نہ بدعت ، بدعت اس لیے نہیں کہ امورِ دنیا میں سے ہے ، امرِ دین میں نئی ایجاد کو بدعت کہتے ہیں، سنت اس لیے نہیں کہ خیر القرون میں اس کا پتا  نہیں لگتا۔

باقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کون سی طرزِ حکومت کو پسندیدہ قرار دیتاہے؟ تو اسلام کسی حکومت کو یہ اجازت نہیں دیتاکہ وہ مخلوق ِ خدا پر کوئی مستبدانہ  (ظلم و استبداد پر مبنی) قانون مخالفِ  احکامِ  الہیہ  و سنتِ نبویہ  جاری کرے ، نیز  "وأمرهم شوري بينهم " کی آیت کی رو سے سربراہ کو مشورہ ضرور کرنا چاہیے، لیکن اسلام مشورہ کے لیے "الذين يستنبطونه منكم " کی قید لگاتاہے اور سلطنت کے معاملہ میں ہر فرد کو نر ہو یا عورت سلطنت کا اہل نہیں سمجھتا،اس لیے اسلام میں پہلا انتخاب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہو ا،یہ مدینے میں جلیل القدر صحابہ نے کیا جو سمجھ بھی رکھتے تھے اور متقی او رپرہیزگار بھی تھے ، دوسرے خلیفہ کا انتخاب نامزدگی سے ہوا،تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا انتخاب ایک چھوٹے حلقۂ انتخاب جو امت کے بہترین اہلِ حل وعقد تھے ،انہوں نے کیا ،چوتھے خلیفہ کا انتخاب اہلِ مدینہ نے کیا، لیکن اس میں کچھ لوگوں نے اختلاف کیا، بہر صورت چاروں انتخابات میں وراثت کے ساتھ ملوکیت کااجراء نہیں ہوا، بلکہ کسی نہ کسی طرح بہترین اہل کو منتخب کیا گیا،بعد میں چوں کہ کوئی مسلمہ اصول طے نہ ہوسکا تھا ،اس لیے بہت جلد وراثت والی ملوکیت قائم ہوگئی۔ صدیوں تک مسلمان بھی غیر مسلموں کے ساتھ ملوکیت کے اصول پر چلتے گئے ،آخری صدیوں میں مسلمان بادشاہوں میں بے دینی آگئی اور ابتدائی صدیوں میں خود مختاری کے باوجود اصولِ شریعت پر پابندی کا  چوں کہ لحاظ باقی تھا،اس لیے مسلمان بادشاہوں کے استبداد نے زیادہ بد نما شکل اختیار نہیں کی، لیکن جب مسلمان بادشاہوں نے بھی " أمرنا مترفيها ففسقوا فيها" کا تماشہ دکھایا  تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بھی وہی بیماری پیدا کردی جس نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں ملوکیت کا خاتمہ کیا تھا،جس طرح مسلمان اغنیاء کے زکوۃ نہ دینے پر اللہ تعالیٰ نے ناصر جیسے اشخاص کو ان پر مسلط کردیا، اب ان ملوک کے حمایت کے لیے یہ کہنا کہ جمہوریت اسلام میں نہیں ہے ، اسلام میں تو ملوکیت کی اجازت ہے، یہ عذر ملوک کو بچا نہیں سکتا، نہ اس کی مخالفت سے کام چلے گا۔ اور جمہوریت کی مخالفت کرکے فوجی جبارین مثلاً ایوب خان وغیرہ کی حمایت کرنا جنہوں نے اسلام اور موجودہ دنیا  دونوں کے قوانین کو توڑ کر ڈکٹیٹرشپ قائم کی اور عائلی کمیشن وغیرہ کے ذریعہ اسلام کی بھی حجامت بنائی، اس کے ساتھ انگریز نے تھوڑے بہت حقوق جو دیئے تھے وہ دنیاوی حقوق بھی واپس لے لیے، اس  طرح اہلِ اسلام کو "خسر الدنیا والآخرة"بنانے کی کوشش کی وہاں پر تو اصول یہ ہے  جیسا کہ ترمذی کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو ہاتھ زبان جس طرح ہوسکے ان کی مخالفت کرے وہ مؤمن ہے اور کم از کم ان سے دل میں نفرت رکھنی چاہیے ۔

جمہوریت ہزاروں عیوب کے باوجود فوجی بے دین جہلاء کے حکومت سے شرعاً زیادہ افضل ہے۔ باقی حکومت کی کسی خاص شکل پر اللہ نے ہم کو مکلف نہیں کیا ، صرف شرط یہ ہے کہ حکومت قانونِ خداوندی چلائے اور ملک کو ہر قسم کے دشمنوں سے محفوظ رکھے اور ملک میں کفر اور الحاد وفسق وفجور کی ممانعت کرے"الذين  إن  مكناهم  في الأرض أقاموا الصلاة و آتوا الزكوة وأمروا بالمعروف ونهو عن المنكر"  اسلام بس اسی کو ضروری قرار دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن ملوک کو اپنے زمانہ میں خطوط لکھے اس میں آپ نے طرزِ حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا ،بلکہ ایمان کا مطالبہ کیا" وقاتلوهم حتي لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله "اسلام کی غرض تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرانا ہے اور بس، اگر کسی زمانے میں نوعِ انسان حکومت کا کوئی زیادہ بہتر ڈھانچہ تجویز کرلے، جس سے ملوکیت، فوجی ڈکٹیٹڑ شپ اور ظالمین کی جباریت ختم ہوجائے تو اس کو ہم خلافِ اسلام نہیں سمجھیں گے۔ واضح رہے کہ  " إن  الحكم  إلا  لله " کا یہ معنی نہیں کہ جمہوریت ناجائز ہے۔ امورِ انتظامیہ مباحہ میں قانون سازی ہی ہوسکتی ہے، ہاں امورِ منصوصہ میں پارلیمنٹ کوئی قانون نہیں بنا سکتی، خوارج نے اس آیت کے مطلب میں غلو کیا تھا،  اور ہمیشہ مسلمان سلطنتوں کے لیے مصیبت بنے رہے ، باقی جمہوریت کی صحیح تعریف آج تک نہیں ہوئی، آدمیوں کو گننا واقعی بسا اوقات ضلالت میں ڈال دیتا ہے،لیکن مشکل یہ ہے کہ اس زمانہ میں کوئی قوم اس کے لیے تیار نہیں کہ اس کو کہا جائے کہ تم سلطنت کے لیے اہلِ رائے نہیں۔  اور حدیث میں "و إتباع كل ذى رأي لرأيه " والا زمانہ آگیا ہے ،اس لیے کسی کو اس بات پر مطمئن کرنا کہ صرف اہلِ علم اور اہلِ دین سلطنت کی شوری میں شامل ہوسکتے ہیں یہ سخت مشکل ہے۔    فقط 

مولانا لطف اللہ پشاوری

30 ذیقعدہ 1382ھ

(رجسڑ نقل فتاوی نمبر:3، صفحہ نمبر:15، سوال نمبر:608، جواب نمبر:20/3، جدید فتوی نمبر:138211300020)

خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوری  نظام اور حکمران کے انتخاب کا طرز  نہ ہی سنت سے ثابت ہے، اور نہ ہی شریعت سے متصادم ہے، بلکہ نظامِ  سلطنت چلانے کا ایک مباح طریقہ کار ہے، اگرچہ  موجودہ نظامِ  جمہوریت میں سقم موجود ہے، تاہم اگر کوئی مسلمان دین اور اہلِ  دین، مسلمانوں کے حقوق  کی حفاظت اور دفاع کی نیت سے ممکنہ حد تک اس نظام کی  خرابیوں سے بچتے ہوئے جمہوری نظام میں شامل ہوکر اسمبلی میں آتا ہے تو  نہ صرف اس کی اجازت ہوگی، بلکہ وہ نیک نیت اور قابلِ قدر جذبے کی بنا پر  ان شاء اللہ تعالیٰ ماجور بھی ہوگا ۔"

تتمہ:

الغرض جمہوریت قطعاً اسلامی طرزِ  حکومت نہیں ہے، البتہ   خالص کفر بھی نہیں ہے، جو صحیح اسلامی مقاصد تک رسائی میں بہرحال حائل ہو، اسے"ان الحکم الا لله"کے منافی قرار دینا خوارج کی پرانی روش ہے، جو ماضی میں منظم حکومتوں کے عدمِ  استحکام کا باعث بنی ہے۔

(2) پاکستان میں آئینی لحاظ سے قرآن و  سنت کی بالادستی ایک واضح حقیقت ہے، آئین کے رو سے اس حقیقت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، اگر پارلیمنٹ کی عددی اکثریت کی بنا  پر قانون سازی  ہو بھی جاۓ، تو وہ اولاً آئینی لحاظ سے خود بھی کالعدم شمار ہوگی، بصورتِ  دیگر ملک میں ایسے آئینی ادارے قائم  ہیں،جو اس قسم کی غیر آئینی اور اسلام سے متصادم قانون سازی  کی نشان دہی اور روک تھام کے لیے مامور ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل، شر یعت اپیلٹ بینچ جیسے ادارے  اس بنیادی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے قائم ہیں، اور  آئینِ پاکستان میں موجود اِسلامی دفعات ہی کی بنیاد پر مسئلہ ختمِ نبوت  اور  ناموسِ رسالت   کے تحفظ سے متعلق قوانین منظور کیے  گئے ہیں  اور ٹرانسجینڈر  سے متعلق  اور دیگر غیر شرعی قوانین کی  روک تھام  کی  گئی ہے۔

(3)پاکستان کے آئین میں بالخصوص 1973ء کے آئین میں جو اسلامی دفعات شامل ہیں،وہ پارلیمان کے راستے سے ہی آئین کا حصہ بنی ہیں،یہ دلیل ہے اس بات کی کہ  جمہوریت  کو اپنی وضعی خرابیوں کے باوجود  اگر صحیح مقاصد کے لیے وسیلہ عمل بنایا جاۓتو اسے شریعت سے متصادم کہنے  کے بجاۓ  شریعت کے ساتھ تعاون شمار کیا  جائے گا۔

اس لیے  ہم فقہی لحاظ سے پاکستان میں رائج جمہوریت کو کفریہ نظام نہیں کہہ سکتے،  جس کے خلاف "ان الحکم الا للّٰه"کے غلط استدلال  کی تاریخ دہرائی جاۓ اور  ایک منظم ملک میں  انارکی پھیلائی جائے۔  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں